2024 اور پاکستان کا غیر مستحکم سکیورٹی منظرنامہ

2024 میں سب سے زیادہ تشویشناک رجحان عسکریت پسندانہ حملوں کی مہلکیت کا تھا جس کے نتیجے میں زیادہ اموات ہوئیں۔

شمالی وزیرستان میں 18 اکتوبر 2017 کو پاکستانی فوجی پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

2024 ختم ہونے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی سکیورٹی کے حوالے سے ملک کی داخلی سلامتی کے منظر نامے میں پیچیدگی، اتار چڑھاؤ اور مہلکیت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

بلوچ علیحدگی پسند اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نے ناصرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا بلکہ انہوں نے اپنے حملوں میں فوجی کیمپوں، سکیورٹی قافلوں اور چیک پوسٹوں کو کثرت سے نشانہ بناتے ہوئے جارحانہ انداز بھی دکھایا۔

اگرچہ پاکستانی حکومت نے جاری انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBOs) کو تیز کرنے کے لیے عزمِ استحکام کی انسداد دہشت گردی کی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ دہشت گرد گروہوں کو کمزور کرنے میں اب تک بظاہر ناکام رہی ہے۔

افغانستان اور ایران میں بالترتیب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی بیرونی پناہ گاہوں نے بھی عزم استقامت کی افادیت کو نقصان پہنچایا ہے۔

2024 میں سب سے زیادہ تشویشناک رجحان عسکریت پسندانہ حملوں کی مہلکیت کا تھا جس کے نتیجے میں زیادہ اموات ہوئیں۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے ڈیٹا بیس کے مطابق رواں سال 1261 پرتشدد واقعات میں 2,113 افراد کی اموات ہوئیں۔

جبکہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 921 پرتشدد واقعات میں 1,513 افراد جان سے گئے تھے۔ پچھلے سال کے مقابلے اس سال اموات میں حیران کن طور پر 36 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جو پاکستانی شدت پسند اور باغی گروپوں کی زیادہ مہلک آپریشنل حکمت عملیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع جیسے بنوں، ڈی آئی خان اور لکی مروت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں فوجی کیمپوں کی حفاظت کے لیے لیویز فورس کی تعیناتی سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں عسکریت پسند اور باغی گروہوں کی بڑھتی ہوئی مہلکیت اور لچک کے تین اہم عوامل ہیں۔

سب سے پہلے پاکستانی باغی اور عسکریت پسند گروہوں کے درمیان انضمام اور اتحاد نے انہیں اپنی آپریشنل حکمت عملی کو بہتر بنانے کے قابل بنایا ہے، جس کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز کو زیادہ اموات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انضمام اور اتحاد عسکریت پسند گروہوں کو اپنے وسائل کو یکجا کر کے، کاموں کو تقسیم کرنے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے، یعنی تشہیر حاصل کر کے، نئی بھرتیوں اور فنڈنگ ​​حاصل کرنے اور اپنے نقصانات کو کم کرنے کے قابل بناتا ہیں۔

ایسے اتحاد ایک گروپ کے لائف سائیکل اور میدان جنگ کی افادیت سے جڑے ہوئے ہیں: جتنے بڑا گروپ کا اتحاد ہوتا ہے اس کے اثرات اتنے ہی بڑے اور زیادہ مہلک ہو جاتے ہے۔

2024 میں، تقریباً 16 عسکریت پسند دھڑوں نے ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود سے وفاداری کا عہد کیا، جن میں نو خیبر پختونخوا، چار بلوچستان، تین سندھ اور ایک پنجاب سے تھا۔

جولائی 2020 سے لے کر اب تک پاکستان بھر میں 65 عسکری دھڑے ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکے ہیں۔

لشکر اسلام اور حافظ گل بہادر گروپ جیسے شدت پسند گروہوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے جس میں سکیورٹی فورسز کے خلاف مشترکہ حملے بھی شامل ہیں۔

اسی طرح بلوچ علیحدگی پسند 2018 میں تشکیل پانے والے بلوچ راجی آجوئی سنگر (بی آر اے ایس) کے اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اس اتحاد کے سائے تلے مزید منظم حملے کرتے رہے ہیں۔

دوسرا، افغانستان اور ایران میں بالترتیب ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی بیرونی پناہ گاہوں بھی ان کی تشدد کی لہر میں اضافہ کی ایک وجہ بنے ہوئے ہیں۔

بیرونی پناہ گاہیں عسکریت پسندوں کی مہم کو جاری رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے خاتمے کو مشکل بناتی ہیں۔

تنقیدی طور پر، بیرونی پناہ گاہیں باغی اور عسکریت پسند گروپوں کو اپنے سٹریٹجک اثاثوں اور سرکردہ رہنماؤں کو نقصانات سے بچانے، انہیں بھرتی، بنیاد پرستی، فنڈ اکٹھا کرنے اور حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے محفوظ جگہیں فراہم کرتی ہیں۔

طالبان کی افغانستان میں اقتدار میں واپسی نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی عسکریت پسندی کی مہم کو پھر سے تقویت بخشی ہے۔

مزید برآں، ٹی ٹی پی کے رہنما پاکستان میں اپنے کیڈرز کو نہ صرف سٹریٹجک رہنمائی فراہم کر رہے ہیں بلکہ گروپ کے نظریاتی بیانیے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

اسی طرح بلوچ علیحدگی پسند گروہ قبائلی روابط، غیر محفوظ سرحدوں، اور ایران پاکستان پراکسی جنگ کا فائدہ اٹھا کر ایران میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے کام کرتے ہیں۔

ان پناہ گاہوں نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہوئے باغی اور عسکریت پسند گروہوں کو ختم کرنے کے طاقت کے ذرائع کی افادیت کو سنجیدگی سے محدود کر دیا ہے۔

اسلام آباد کو ان پناہ گاہوں کو بند کرنے کے لیے کابل اور تہران سے تعاون حاصل کرنے کے لیے اپنی سکیورٹی صلاحیتوں کو ایڈروائٹ (adroit) ڈپلومیسی کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔

تیسرا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی میدان میں مداخلت نے اسے سرحدوں کی حفاظت اور داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے توجہ ہٹا دیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان جاری اور کبھی نہ ختم ہونے والی کشمکش نے بدقسمتی سے انسداد دہشت گردی کو سیاست زدہ کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی عسکریت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہی ہے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور آپس کی لڑائی نے اس حوالے سے اتفاق رائے کو نقصان پہنچایا ہے۔

جب جون میں اس آپریشن کا اعلان کیا گیا تو خیبرپختونخوا کے مختلف طبقات کی جانب سے عزم استحکام کی حکمت عملی کی مخالفت کی گئی۔

اسی طرح بلوچستان میں انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی ہیرا پھیری نے نہ صرف سیاسی عمل سے لوگوں کا اعتماد ختم کیا ہے بلکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مسلح گروہوں کی طرف دھکیل دیا ہے، بلکہ انسداد بغاوت مہم کے جواز کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

دو عوامل کی وجہ سے 2025 میں پاکستان کا عسکریت پسندی کا چیلنج مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ سب سے پہلے، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی کشمکش کم ہونے کا امکان نہیں ہے، جس سے عسکریت پسندی کو روکنے کی کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔

دوسرا، اپنے ملکی اقتصادی چیلنجوں اور انسداد دہشت گردی کے لیے بیرونی فنڈنگ ​​کی کمی کی وجہ سے، پاکستان کے پاس عسکریت پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے کے لیے مالیاتی فنڈز نہیں ہیں۔

عزم استحکام کی حکمت عملی کے تحت اب تک تیز رفتار آئی بی اوز صرف حکمت عملی سے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو اپنی سلامتی اور سیاسی دونوں صورتوں کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔

اگر اسٹیبلشمنٹ اور سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی کشمکش جاری رہی تو یہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔

امریکی انخلا کے بعد، پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے فریم ورک میں بڑا خلا، جو کہ واشنگٹن کی مالی امداد پر منحصر تھا، بے نقاب ہو گیا ہے۔

لہٰذا، ایک مقامی اور کفایت شعار انسداد دہشت گردی کی پالیسی کے ساتھ لانے کی ضرورت ہے۔

مختصراً، 2024 ایک نازک سال تھا جس نے پاکستان کو پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X:@basitresearcher.

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر