جس کا جتنا دل چاہتا ہے ملک کو بدنام کرتا ہے: جسٹس امین الدین خان

جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’آپ ایم این اے ہیں یہ باتیں پارلیمنٹ میں کریں۔ آپ 26ویں ترمیم منظور کرتے ہیں پھر ہمیں کہتے ہیں کالعدم قرار دیں۔‘

جسٹس امین الدین خان سات رکنی آئینی بینچ کے پہلے سربراہ مقرر دیگر ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر کے علاوہ جسٹس نعیم افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں (سپریم کورٹ ویب سائٹ)

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’بعض اوقات جھوٹے واقعات سے ملک کو بدنام بھی کیا جاتا ہے، جس کا جتنا دل چاہتا ہے ملک کو بدنام کرتا ہے۔‘

بدھ کو آئینی عدالت کے سات رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

عمران خان کے وکیل کے بجائے اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے پہلے دلائل دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔

عدالت نے لطیف کھوسہ سے کہا ’قانونی نکات پر دلائل شروع کریں، پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں، سیکشن ٹو ڈی کو نو اور 10 مئی کے ساتھ مکس نہ کریں، پہلے ان سیکشنز کی آزادانہ حیثیت کا جائزہ پیش کریں، سیکشن ٹو ڈی کا نو مئی  پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں اس پر بعد میں بات کریں گے۔‘

لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں، اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ انڈر ٹرائل ہے۔‘

جسٹس امین الدین خان نے جواباً کہا کہ ’سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔‘

سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’آئین میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، سیکشن ٹو ڈی برقرار نہیں رکھا جا سکتا، ملٹری کورٹس کی تشکیل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

سیکشن ٹو ڈی کا قانون 1967 میں لایا گیا، سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا، ملک ٹوٹ کر دوسرا حصہ بنگلہ دیش بن گیا، حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھا گیا کہ وہاں اداروں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا آئین میں قانون سازی کرنے پر کوئی ممانعت ہے۔‘

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’ملٹری کورٹس کے لیے انہیں 21ویں ترمیم کرنی پڑی، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ملٹری ٹرائل میں ججز اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا، اس لیے نو مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کی گئی۔‘

نو مئی کا ذکر کرنے پر جسٹس امین الدین خان نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’کھوسہ صاحب آپ پھر دوسری طرف چلے گئے ہیں۔‘

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا، ساری عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے، سیکشن ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، ملٹری ٹرائل خفیہ کیا جاتا ہے۔‘

اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ’خواجہ حارث نے بتایا کہ شفاف ٹرائل کا پورا طریقہ کار ہے، پروسیجر اگر فالو نہیں ہوتا تو وہ الگ ایشو ہے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’کھوسہ صاحب تاریخ جائیں تو آپ کی بڑی لمبی پروفائل ہے، آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے ٹو ڈی سیکشن کس ختم کرنے کا کیا قدم اٹھایا، ہماری طرف سے بے شک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کر دے۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر انہیں کہا کہ ’پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور بات یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں، فوجی عدالتیں تو بعد میں بنیں، سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کچھ اور تھیں۔‘

سویلین کا فوجی ٹرائل ختم کرنے پر عوام آپ کے شیدائی ہو جائیں گے: کھوسہ

لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ہیں 26ویں ترمیم کیسے پاس ہوئی، 26 ترمیم کیسے پاس ہوئی زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے، آپ اس کیس میں فیصلہ دیں ہم اس کے دفاع میں کھڑے ہوں گے، سویلین کا فوجی ٹرائل ختم کرنے پر عوام آپ کے شیدائی ہو جائیں گے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’سپریم کورٹ نے ہی فیصلہ دیا تھا اس کے خلاف اسمبلی نے قرارداد منظور کر لی۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’ہم مضبوط فوج چاہتے ہیں جس کے ساتھ عوام بھی کھڑی ہو، چاہتے ہیں فوج ٹرائلز کے معاملے سے باہر نکلے، آرٹیکل 175 کے خلاف تمام قانون سازی کالعدم ہوتی رہی ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر  نے استفسار کیا کہ ’21ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قرار دیا گیا؟‘

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’21ویں ترمیم کو جنگی صورت حال اور دو سال کی مدت کی وجہ سے کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’کیا چار سال فوجی عدالتیں قائم رہنے سے دہشت گردی ختم ہو گئی؟‘

اتنی بڑی فوج ہے پھر بھی دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہو رہی؟

لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اتنی بڑی فوج ہے پھر بھی دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہو رہی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کرے، عدالت فوج کو ٹرائلز سے نکال کر ان کا احترام کرائے، دنیا میں جہاں بھی سازش ہوئی پہلے فوج کو عوام سے دور کیا گیا، سب ادارے آئین کے دائرے میں رہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’آج اخبار میں خبریں دیکھ کر شرم آئی کہ لوگوں کو چن چن کر گولیاں ماری گئیں، سندھی پنجابی بلوچی اور پٹھان کی تفریق سے نکلنا ہو گا، بدقسمتی سے 18ویں ترمیم سے بھی صوبائیت کو ہوا ملی۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’آپ ایم این اے ہیں یہ باتیں پارلیمنٹ میں کریں۔ آپ 26ویں ترمیم منظور کرتے ہیں پھر ہمیں کہتے ہیں کالعدم قرار دیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ’یہ مسائل پارلیمنٹ کے حل کرنے والے ہیں۔ کیا آپ نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا؟ آپ کا کام مخالفت کرنا تھا اپنا کردار تو ادا کرتے، خیر اس بات کو چھوڑیں یہ سیاسی بات ہو جائے گی۔‘
لطیف کھوسہ نے آئی سی جے عدالت کی رپورٹ کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا ’کیا عالمی عدالت انصاف کے ممبران کے ملک میں بھی دہشت گردی واقعات ہوتے ہیں؟‘

تو لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’بالکل وہاں پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔‘

وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ’پانچ ہزار ملزمان سے 103 کا انتخاب کیسے ہوا معلوم نہیں، میں نے عدالت میں تحریری معروضات جمع کروائی ہیں، ہم نے تو نو مئی پر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا ہے آئی جی کو پوچھنا چاہیے روکا کیوں نہیں جوڈیشل کمیشن کے لیے کیوں اتنی ہچکچاہٹ ہے۔‘

عدالت نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ہم آپ کی تحریری معروضات کو پڑھ لیں گے۔ اس کے بعد وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہو گئے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل ک آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں فوجی عدالتوں سے متعلق گذشتہ برس کے جسٹس عمر عطا بندیال کے اوریجنل فیصلے کو مکمل سپورٹ کرتا ہوں۔

’فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے عدالتی اختیار اس کے پاس نہیں ہے، فوج آرٹیکل 245 کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتی۔‘

عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری مزید دلائل کل دیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان