افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت نے تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط قائم کرنے، غریب و امیر کے مابین امتیاز ختم کرنے اور اسلامی لباس کی ترویج کے لیے تعلیمی اداروں میں طلبہ اور اساتذہ کے لیے نیا یونیفارم متعارف کروا دیا ہے۔
وزارت تعلیم کی جانب سے 17 فروری کو جاری کیے گئے مراسلے (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) پر افغان طالبان کے امیر ہبت اللہ اخونزادہ کے دستخط موجود ہیں۔
مراسلے کے مطابق یہ یونیفارم سرکاری و نجی تعلیمی اداروں پر لاگو ہوگا، جو عمومی طور پر شلوار قمیض ہو گی لیکن قمیض نصف ساق (ٹخنے سے گھٹنے تک) تک ہونی چاہیے۔
اسی طرح نئی ہدایات کے مطابق کپڑے ایسے نہیں ہونے چاہییں، جن میں بدن کے اعضا نمایاں نظر آئیں جبکہ شلوار قمیض کے ساتھ پگڑی یا ٹوپی پہننا لازمی ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے متعارف کروائے گئے یونیفارم کے مطابق سرکاری سکولوں میں پہلی جماعت سے نہم جماعت تک کے طلبہ نیلے رنگ کی شلوار قمیض اور اس کے ساتھ ٹوپی یا پگڑی پہنیں گے۔
اسی طرح جماعت دہم سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کا یونیفارم سفید رنگ کا ہوگا اور اس کے ساتھ پگڑی یا ٹوپی لازمی ہوگی۔
مراسلے کے مطابق نجی تعلیمی ادارے یونیفارم کا رنگ اپنی پسند کے مطابق مختص کر کے اس پر اپنا لوگو یا نام چسپاں کر سکتے ہیں۔
اسی مراسلے کے مطابق تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے لیے بھی یونیفارم متعارف کروایا گیا ہے، جو شلوار قمیض کے ساتھ ٹوپی یا پگڑی ہے جبکہ مدارس کے اساتذہ بھی دینی علما کی طرز پر شلوار قمیض اور پکڑی پہنیں گے۔
اس مراسلے میں تعلیمی اداروں کے سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں طلبہ کے سرپرستوں کو بلا کر ان سے تحریری طور پر اقرار نامہ لکھوایا جائے گا کہ وہ آئندہ خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
مراسلے میں محکمہ مانیٹرنگ کو ہدایت دی گئی ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس حکم نامے پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
اس سے پہلے 2023 میں افغان طالبان نے طالبات کے لیے بھی ایک ڈریس کوڈ متعارف کروایا تھا۔
جس کے تحت چھٹی جماعت کے طالبات کے لیے گرے رنگ کی شلوار قمیض مختص کی گئی ہے، جس کی لمبائی ٹخنوں تک ہو گی اور سفید رنگ کا نقاب لازمی ہوگا جبکہ چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے لیے مہندی رنگ کی شلوار قمیض اور سیاہ رنگ کا سکارف پہننا لازمی ہوگا، تاہم چھٹی جماعت سے اوپر خواتین کی تعلیم پر ابھی پابندی ہے۔
اس مراسلے میں صرف سکولوں کا ذکر موجود ہے اور یہ یونیورسٹیوں پر لاگو نہیں ہے۔
کابل کے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ایک پاکستانی طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کالج انتظامیہ نے انہیں بتایا ہے کہ یہ یونیفارم سکولوں کے لیے متعارف کروایا گیا ہے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے نہیں ہے۔
طالب علم نے بتایا کہ ہمارے کالج میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور طلبہ شلوار قمیض، جینز یا ٹراؤزر میں بھی کالج آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’کالج کی جانب سے ایسا کوئی خاص ڈریس کوڈ نہیں بتایا گیا ہے بلکہ طلبہ اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہن کر آتے ہیں۔‘