خواتین پر پابندی: افغان طالبان کے سینیئر عہدے دار کی اپنی ہی حکومت پر تنقید

افغان طالبان کے ایک سرکردہ عہدے دار نے عسکریت پسند گروپ سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے سکولوں کے دروازے کھولنے پر زور دیا ہے

12 ستمبر 2020 کی اس تصویر میں دوحہ مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں افغان طالبان کے نمائندے عباس ستنکزئی (بیٹھے ہوئے) کو دیکھا جا سکتا ہے (کریم جعفر / اے ایف پی)

افغان طالبان کے ایک سرکردہ عہدے دار نے عسکریت پسند گروپ سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے سکولوں کے دروازے کھولنے پر زور دیا ہے، جو افغانستان کے حقیقی حکمرانوں کی نمایاں پالیسیوں میں سے ایک پالیسی پر داخلی اختلافات کی نادر مثال ہے۔

طالبان کے قائم مقام نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے سکولوں پر پابندی کا حکم شریعت کے مطابق نہیں، جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امارات اسلامی کے رہنماؤں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے دروازے کھولیں۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس بات کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی کبھی ہو گا۔‘

صوبہ خوست کے مدرسے میں گریجویشن کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’نبی اکرم ﷺ کے دور میں علم کے دروازے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے کھلے تھے۔‘

62 سالہ طالبان عہدے دار، جن پر اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، نے کہا کہ ان کے اپنے رہنما ’دو کروڑ لوگوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔‘ ان کی  مراد افغانستان کی تقریباً نصف آبادی، خواتین تھیں۔

قائم مقام نائب وزیر خارجہ نے کہا: ’ہم نے انہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ ان کے پاس وراثت کا حق نہیں، شوہر کے حقوق طے کرنے میں کوئی حصہ نہیں، وہ جبری شادیوں میں قربان کی جاتی ہیں، انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں، وہ مساجد نہیں جا سکتیں، یونیورسٹیوں اور سکولوں کے دروازے ان پر بند ہیں اور انہیں مذہبی مدارس میں بھی داخلے کی اجازت نہیں۔‘

اگست 2021 میں افغانستان کا انتظام سنبھالنے کے بعد، طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ ملک کو شریعت کی معتدل تشریح کی بنیاد پر چلائیں گے اور خواتین کو مغربی ملکوں کی حمایت یافتہ سابقہ حکومت کے دور میں حاصل حقوق اور آزادیوں کو برقرار رکھیں گے۔

لیکن چند ہی مہینوں میں انہوں نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کے لیے تعلیم بند کر دی اور 2022 کے آخر میں خواتین کے لیے کالجوں کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعض مقامات پر طالبات کو بندوق کی نوک پر گھروں کو بھیجا گیا۔

شیر محمد عباس ستنکزئی، جو 2021 میں امریکی افواج کے انخلا سے پہلے طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے مذاکراتی وفد کے سربراہ تھے، پہلے بھی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کر چکے ہیں۔

لیکن ان کے تازہ ترین بیان میں پہلی بار پالیسی میں تبدیلی کی بات اور طالبان کے رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ سے براہ راست درخواست کی گئی۔

بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں صنفی امتیاز کو بنیاد بنا کر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ذکر کیا گیا۔

 ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکن جو افغانستان کی صورت حال کی نگرانی کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ملکی خواتین پر گہرا اثر ڈالے گی۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کا ارادہ خواتین کے لیے سکول اور یونیورسٹیاں دوبارہ کھولنے کا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی واضح تفصیلات نہیں دی گئی ہیں کہ وہ یہ کام کیسے اور کب کریں گے؟ دریں اثنا اطلاعات ہیں کہ طالبان کے کئی بڑے رہنما اپنے بچوں کو بیرون ملک سکول بھیج رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین