گندھارا کے علاوہ دردی تہذیب بھی پاکستان کا ثقافتی ورثہ ہے

گلگت بلتستان میں پائے جانے والے ہزاروں سال پرانے تاریخی آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہے اور نہ ہے کمیونٹی سطح پر انہیں اپنا تاریخی اثاثہ سمجھ کر سنبھالنے کا رواج فروغ پایا ہے۔

12 جولائی 2023 کو ایک پاکستانی پورٹر کو اسکولے اور کے ٹو کے درمیان پگڈنڈی پر پیدل سفر کر رہا ہے جو قراقرم سلسلے میں دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ ہیں (جو اسٹینسن / اے ایف پی)

مطبوعہ تاریخ میں گندھارا اور دردا تہذیبوں کا ذکر سب سے پہلے یونانی مورخ ہیروڈوٹس کے ہاں ملتا ہے جس نے اپنی کتاب میں گندھارا اور دردی تہذیب کا ذکر کیا ہے۔

پاکستانی مورخ اور لسانیات کے ماہر رازول کوہستانی کی تحقیق ہے کہ مہا بھارت کی کہانی میں دس سے زائد جگہوں پر درد قبائل کا ذکر آیا ہے جبکہ بارہویں صدی عیسویں میں لکھی گئی تاریخ کی مشہور کتاب راج ترنگنی میں بار بار درد قبائل کا ذکر آیا ہے۔

راج ترنگنی میں درد کا مرکز کشن گنگا کے آس پاس موجودہ گریز کو بتایا گیا ہے جہاں سے برزل پاس عبور کر کے گلگت بلتستان آنے کا قدیمی راستہ موجود ہے۔

کیا درد ایک نسل ہے یا انڈو آرین کے مختلف لہجے بولنے والے گروہوں کا مجموعہ ہے؟ اس پر صاحبان علم نے بڑی بحث کی ہے، البہ دردستان نام وضع کرنے کا سہرا برطانوی نژاد کے جی ڈبلیو لٹنر کو جاتا ہے جو انیسویں صدی میں گلگت پہنچے اور Dardistan in 1866, 1886 and 1893  کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ دی تھی۔ علاوہ ازیں درجنوں مقامی اور غیر ملکی محققین نے اس موضوع پر کئی مضامین، مقالے اور رپورٹس مرتب کی ہیں جن کا خوف طوالت سے یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا۔

غرض قدیم سوات، بحرین، کالام سے لے کر انڈس کوہستان اور گلگت بلتستان کے بیشتر حصے میں دردی زبانیں بولی جاتی ہے جبکہ کشمیری اور چترالی زبان بھی اسی خاندان سے منسلک ہیں۔ یہاں علاقے دردی تہذیب کا جنم بھومی اور گڑھ رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گندھارا نہایت اہم تہذیبی مرکز رہا ہے اور یہاں کا آرٹ، کلچر اور تہذیبی روایات اس خطے کی ذہنی بالیدگی اور فکری رحجانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ بدھ ازم کے چین تک فروغ میں بھی گندھارا کا مرکزی کردار رہا ہے، نیز یونانی تہذیب کے اثرات سے گندھارا آرٹ میں نمایاں نئے پہلو متعارف ہوئے ہیں۔

لیکن اسی کے متوازی دردی تہذیب پر کوئی خاص تحقیق اب تک نہیں ہو سکی، نہ ہی عوام کو اس کے بارے میں کچھ آگاہی ہے۔ گلگت بلتستان کا خطہ ہزاروں برس سے ہندوستان کے ایشیا اور چین سے رابطے کا اہم وسیلہ رہا ہے، جس کی وجہ سے یہاں آثارِ قدیمہ کا بےبہا خزانہ موجود ہے۔

پاک جرمن تحقیقاتی مشن کی ریسرچ کے مطابق صرف چلاس اور اسی کے اطراف میں دریائے سندھ کے کناروں پر 50 ہزار سے زائد پتھروں پر سنگی نقوش پائے گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ مختلف پتھروں پر پانچ ہزار سے زائد مختلف تحریریں ملی ہیں۔

گلگت اور بلتستان کے دیگر اضلاع میں پائے جانے والا اثری ورثہ ان کے علاوہ ہے۔ جہاں تک ان اہم آثار کو محفوظ کرنے والی بات ہے تو شتیال سے رائے کوٹ تک کا بیشتر حصہ دیامر بھاشا ڈیم کے زیر آب آ رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب دیگر اضلاع میں موجود اس طرح کے آثار کی حفاظت کا بھی کوئی مناسب نظام موجود نہیں۔

سماجی شعور اور آگہی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان قیمتی آثار کو سخت خطرات لاحق ہیں جس میں ان کو شوقیہ خراب کرنے اور خزانے کی تلاش میں بیدردی سے کھدائی جیسے مسائل درپیش ہیں۔

اس کی ایک واضح مثال چلاس میں دریائے سندھ کے کنارے سینکڑوں بلڈوزروں کے ذریعے سونے کے لیے کھدائی ہے جو ان دنوں عروج پر ہے۔ گلگت بلتستان میں پائے جانے والے ان ہزاروں سال پرانے تاریخی آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہے اور نہ ہے کمیونٹی سطح پر انہیں اپنا تاریخی اثاثہ سمجھ کر سنبھالنے کا رواج فروغ پایا ہے۔ اس بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان آثار کو توڑا جا رہا ہے یا بیدردی سے ان کی صورت بگاڑ دی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلتستان میں ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ اس طرح کی کئی سائٹس پر رنگ و روغن پھیر کر قسم قسم کے اشتہارات اور عوامی نعرے لکھ دئے گئے ہیں۔ کہیں کہیں تو ان چٹانوں کو جان بوجھ کر یا اہمیت نہ دے کر توڑنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔

اس خطے میں ایک بڑا مسئلہ سمگلنگ کا بھی ہے، اور آئے دن خبریں آتی ہیں کہ یہاں کے انمول ذخائر باہر کے ملکوں میں بھجوا دیے جاتے ہیں۔ اس کی روک تھام ضروری ہے اور ان تمام مراحل میں مقامی کمیونٹی کی شمولیت بھی اہم ہے تاکہ وہ ان اثاثوں کی حفاظت کرے۔

ماضی کے تحفظ کے حوالے سے جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ضروری ہے۔ اس کے تحت ورچول میوزیم، مخطوطات کی ڈیجیٹائز اور ڈاکومنٹری کی اہمیت بھی بیان ہوئی۔ ورچوئل میوزیم کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں کہیں سے بھی فیس ادا کر کے ہماری تہذیب و ثقافت کی مختلف اشیا کا آسانی سے  وزٹ اور مطالعہ ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ آج کل مصنوعی ذہانت کا غلغلہ ہے لہذا یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اس کے ذریعے سے پرانی تحریریں کا مطالعہ اور توضیح و تشریح کا کام لیا جا سکتا ہے۔

مستقبل کے لیے ان ہیرٹیج کو تحرک کا ذریعہ بنانے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر ہیرٹیج کلب اور کیمونٹی سطح پر کلچرل گروپ کی تشکیل نہایت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ سکول اور کالج کے نصاب میں اور کارٹون کہانیوں میں شامل کر کے بچوں کے شوق کو بڑھاوا دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ریسرچ کے لیے گرانٹس اور سکالرز شپ کا انتظام اکیڈمک مواد کو فروغ دے گا۔

ایکو اور کلچر بیسڈ ٹورازم کے فروغ کے لیے AI نقشے، سائٹس پر QR کوڈز کے ذریعے معلومات کی فراہمی، کمیونٹی بیسڈ میلے تہوار اور بلاگ اور سوشل میڈیا کا درست استعمال مفید ثابت ہو گا۔

ماحول کی بحالی کے لیے گرین ہوٹل، گرین گیسٹ ہاؤسز، رینوایبل انرجی، نیچرل واک، پازیٹو الیکٹریسٹی اور ماحول دوست کیمپنگ معاون ہیں۔ تاریخی آثار کی بہتر حفاظت اور انہیں مذہبی اور کلچرل ٹوارزم میں بے پناہ اضافی ممکن ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ