پے در پے مہلک حملوں کے بعد وزیراعظم کا وزرا کے ہمراہ دورہ بلوچستان

حالیہ مہینوں میں پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف 3 فروری 2025 کو کوئٹہ پہنچے ہیں جہاں ان کا استقبال وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی اور دیار اعلی حکام نے کیا (ایوان وزیر اعظم)

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر پے در پے حملوں کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اپنی کابینہ کے اہم وزرا کے ہمراہ پیر کو کوئٹہ پہنچ  گئے ہیں جہاں ہوائی اڈے پر ان کا استقبال وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی اور گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے کیا ہے۔

اس دورے کے دوران وزیر اعظم کو صوبے کی سکیورٹی کی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شہباز شریف کے ہمراہ ہیں۔ کوئٹہ میں وزیر اعظم صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے اور انہیں امن و امان کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔

صوبائی حکومت کے مطابق وزیراعظم ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔

گذشتہ ہفتے ہی بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں 18 فوجیوں کی جان گئی تھی جبکہ 23 عسکریت پسند مارے گئے۔

یہ ایک ہی دن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر سب سے مہلک حملہ تھا۔

اس حملے سے چند روز قبل ہی 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب  بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے تحصیل گلستان میں عسکریت پسندوں نے ایف سی کی ایک چوکی پر خودکش بمباروں کے ہمراہ حملہ کیا تھا جس میں دو فوجیوں کی جان گئی جبکہ جھڑپ کے دوران دو خوکش حملہ آوروں سمیت پانچ شدت پسند مارے گئے۔

پاکستانی فوج کے مطابق اس حملے کے بعد عسکریت پسندوں سے جو اسلحہ قبضے میں لیا گیا وہ امریکی ساختہ تھا۔ 

حالیہ مہینوں میں پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

آٹھ جنوری کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں شدت پسندوں نے حملہ کر کے کچھ سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کر دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح پانچ جنوری کو حکام کے مطابق بلوچستان کے شہر تربت کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد کی جان گئی اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ شدت پسند مسافر گاڑیوں اور ٹرکوں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔

ان حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری علیحدگی پسند کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔

حکومت کی طرف سے صوبے میں امن و امان کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے علاوہ شدت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ آرمی چیف عاصم منیر بھی یہ حالیہ بیانات میں یہ کہتے آئے ہیں کہ ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی تحت کارروائی کی جا رہی ہیں۔

ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے امن و امان کا قیام ناگزیر ہے۔

ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے 444 کیے جن جن میں کم از کم 685 اموات ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان