پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور پشتون قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ اگر ملک کو چلانا ہے تو ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی طرح برابر ’پاور‘ ہونی چاہیے۔
وہ بدھ کو اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین کے انتظام حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشترکہ دوروزہ قومی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
محمود خان اچکزئی
ان کا کہنا تھا کہ امن انسانی ضرورت اور انصاف سے جڑی ہوئی اصطلاح ہے لیکن جب آپ حق کی بات کرتے ہیں تو آپ غدار ہیں۔ غدار کی تعریف آئین نے کر دی ہے۔
محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’آٹھ فروری کے الیکشن میں جس انداز میں آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں، جس طرح زر اور زور کی بنیاد پر جیتے ہوئے لوگوں کو ہرایا گیا، یہ تاریخ میں کہیں نہیں ہوا۔
’آپ نے سینیٹ تو بنا لی، لیکن اس کی حیثیت کیا ہے؟ اگر اس ملک کو چلانا ہے تو سینیٹ میں قومی اسمبلی کی طرح برابر ’پاور‘ ہونی چاہیے۔‘
اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ حق مانگنے پر الزامات لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔
محمود اچکزئی کے مطابق ’کوئی ملک فوج اور جاسوسی اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جاسوسی ادارے ملک کے آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے مطابق وہ مثبت کردار ادا نہیں کر رہے۔
’انسان بنیادی طور پر حقِ حکمرانی میں حصہ چاہتا ہے، ہمارے ملک کو ملنے والی آزادی کے ثمرات نیچے تک نہیں گئے، ہمارے لوگوں کو حقِ حکمرانی میں شراکت دار نہیں بنایا گیا، ہمیں سینکڑوں بار جیل ہوئی مگر ہم پاکستان کے خلاف نہیں گئے، میرے والد جیل میں تھے مگر میں قومی ترانہ پڑھتا تھا۔‘
شاہد خاقان عباسی
حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’ہم سب کا متفقہ نقطہ نظر ہے کہ جب تک پاکستان آئین کے مطابق نہیں چلے، قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جب تک ملک میں آئین کی بالادستی نہیں ہوگی، ملک میں انتشار رہے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’بد قسمتی سے جب ملک میں آئین کی بات کی جاتی ہے تو ایوان اقتدار ہل جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی جو کسی زمانے میں جمہوریت کی داعی تھیں آج اقتدار کے داعی ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کے سابق رہنما اور سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو اتنا خوف ہے کہ آج ایک ملک میں آئین کے نام پر آپ ایک کانفرنس بھی نہیں کر سکتے۔ بد قسمتی سے بات کرنی کی اجازت نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس دو روزہ کانفرنس کے لیے انتظامیہ نے بہانے بنائے اور جگہ نہیں دی پھر وکلا نے کانفرنس کے انعقاد کے لیے کانفرنس ہال فراہم کیا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’رات کے اندھیرے میں آئین کی روح سے متصادم آئینی ترمیم ہوئی۔ آج وہ آدمی چیف جسٹس ہے جو آئینی بینچ نہیں بنا سکتا، جس کاجج تعینات کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جو آئینی مسائل نہیں سن سکتا، ججز کی کارکردگی کا جائزہ نہیں لے سکتا، سوموٹو پاور نہیں ہے۔ جمہوریت کے قتل پر پوری دنیا ہمیں ملامت کر رہی ہے۔‘
معروف خاتون صحافی اور انڈپینڈنٹ اردو کی کام نویس عاصمہ شیرازی کا کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جمہوریت کی سر بلندی میں ذرائع ابلاغ کا بھی بڑا کردار ہے۔ میڈیا پر پابندیاں اور سختیاں پہلی بار نہیں ہیں۔ ہم کسی سیاسی جماعت اور سیاسی اجتماع کے ساتھ نہیں ہیں۔ ہم نظریاتی سرحد کے محافظ ہیں، اس سرحد میں جو بھی آئے گا ہم اس کے ساتھ ہیں، وہ چاہے جو بھی ہو۔‘
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ جب سات صفحوں کا اخبار بک جائے گا تو پھر کون سی صحافت آزادی مانگتی ہے۔ کونسی صحافت اشتہار لے کر کہتی ہے کہ پیکا کے خلاف کھڑی ہو جاؤں۔ کبھی صحافت میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ اشتہارات خبر کی صورت میں چھپے ہوں۔ اس طرح کے اشتہار چھاپنے والے اخباروں کے خلاف بھی بولنا چاہیے۔
’صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ جوصحافت آئین کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے وہ کل بھی مطعون تھی وہ آج بھی ہے۔‘
نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی اعزاز سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’سیاستدانوں اور صحافیوں کو اپنا گھر درست کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ آئین کی بالادستی کے لیے ہوم ورک بڑا ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہم سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلز سے تعلق رکھنے والے صحافی اور یوٹیوبرز نے بھی اس دو روز کانفرنس میں شرکت کی ہے۔