سٹیڈیم تو بن گئے، ٹیم نہ بن سکی

جس توجہ، تیزی اور پھرتی سے سٹیڈیم بنے تھے، چیمپیئنز ٹرافی کے دوران وہ توجہ ٹیم کی سیلیکشن، تیاری اور منصوبہ بندی میں غائب نظر آئی۔

23 فروری 2025 کو لاہور کی ایک دکان پر لوگ براہ راست نشریات دیکھ رہے ہیں، جس میں دبئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا میچ دکھایا جا رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین (اور پاکستانی وزیرِ داخلہ) محسن نقوی نے راتوں رات کام کروا کر ریکارڈ مدت میں چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان کے اہم سٹیڈیم تیار کیے اس سے انہیں تمام پاکستانیوں کی طرف سے شاباش دی گئی اور ملک بھر میں ’محسن سپیڈ‘ کے چرچے ہونے لگے۔

لیکن جس توجہ، تیزی اور پھرتی سے سٹیڈیم بنے تھے، وہ توجہ ٹیم کی سیلیکشن، تیاری اور منصوبہ بندی میں غائب نظر آئی۔ چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم نے جس طرح شائقین کے ارمان چکناچور کیے، اس کی گونج ابھی تک سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عوام کے پاس ویسے ہی کھیل میں ایک کرکٹ ہی رہ گئی ہے جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں اور اب وہ خوشی بھی ان سے چھین لی گئی ہے۔

کرکٹ ہے تو کھیل ہی مگر کھیل ہی کھیل میں یہ پاکستان کے اجتماعی مزاج اور نظام کا عکاسی بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں جہاں سیاست، معیشت، تعلیم اور معاشرتی اقدار تنزلی کا شکار ہو چکا ہے وہیں کھیل کے میدان میں بھی زوال ناگزیر ہو چکا ہے۔

پاکستانی کرکٹ جس کے بارے میں ماہرین طویل عرصے سے ناقص حکمت عملی، بدانتظامی اور میرٹ کی پامالی کی وجہ سے کرکٹ ٹیم کے تنزلی کا شکار ہونے کے واضح اشارے دے رہے تھے آخر کار نیوزی لینڈ اور انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد اب اس کی نمازہ جنازہ پڑھنے اور اس کے دفنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔

آئرلینڈ، امریکہ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے شکست اور زوال کا آغاز

پاکستان کچھ عرصہ قبل تک دنیا کی اچھی ٹیموں کے ساتھ کبھی جیت کر اور کبھی ہار کر عالمی سطح پر اپنے معیار کو برقرار رکھے ہوئے تھا، لیکن جب سے اس نے چھوٹی چھوٹی ٹیموں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا اس کا معیار گرتا چلا گیا اور پھر خطرے کی گھنٹیاں اس وقت بجنا شروع ہوئیں ٹیم افغانستان سے بار بار ہارنے کے بعد بنگلہ دیش سے بھی وائٹ واش کھا گئی۔

سابق کھلاڑی، ماہرین اور عوام اس وقت یک زبان ہیں کہ پاکستان کی اس ناقص کارکردگی کی وجہ بری حکمت عملی، بری سیلیکشن، کمزور بیٹنگ لائن اور غیر موثر بولنگ اور خراب فیلڈنگ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کرکٹ ٹیم جو کہ چیمپیئنز ٹرافی کا میزبان ملک ہے اپنے پہلے ہی میچ (اس سے قبل پاکستان ٹرائی نیشن مقابلوں میں دو بار نیوزی لینڈ سے پاکستانی سرزمین پر شکست کھا چکا ہے) میں یک طرفہ طور پر ناقص کارکردگی کی بنا پر شکست سے دوچار ہوا لیکن پاکستان کی ٹیم اور سیلیکشن کمیٹی نے اس شکست کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور اپنا اگلا میچ کھیلنے دبئی پہنچ گئی۔

یہ میچ پاکستانیوں کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بابر اعظم اور دوسرے پاکستانی کھلاڑیوں سے مایوس ہو کر پاکستانی شائقین نے کوہلی کو ہی داد دینا شروع کر دی تھی۔

پاکستانی ٹیم کا زوال: وجوہات اور حقائق

پاکستان کرکٹ کی دیواریں دہائیوں سے کھوکھلی ہو رہی تھیں۔ ہر دور میں عارضی مرمت کر کے معاملات کو چلایا گیا، مگر بنیادی مسائل پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ ٹیم سیلیکشن میں پسند ناپسند، غلط حکمت عملی، روایتی سوچ اور قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان کھل کر سامنے آیا۔

ناقص کپتانی: ایک اچھا کپتان مشکل لمحات میں ٹیم کو سنبھالتا ہے، لیکن پہلے بابر اعظم اور اب رضوان کی دفاعی اپروچ نے ٹیم کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔

غلط سیلیکشن: جن کھلاڑیوں نے حالیہ دوروں میں شاندار کارکردگی دکھائی، انہیں چیمپیئنز ٹرافی میں شامل نہیں کیا گیا۔ سابق کھلاڑی کہتے رہ گئے کہ پاکستان کو کم از کم ایک اور کل وقتی سپنر کی ضرورت ہے، مگر اس پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا اور پاکستان صرف ابرار احمد کے ساتھ میدان میں اترا۔

ناقابلِ فہم فیصلے: بیٹنگ آرڈر میں غیر ضروری تبدیلیاں، غیر مؤثر بولنگ اٹیک اور فیلڈنگ میں سستی نے شکست کی بنیاد رکھی۔

منصوبہ بندی کی کمی: بیٹنگ لائن میں بھی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔

پاکستان جدید عالمی کرکٹ سے پیچھے رہ گیا ہے

پاکستان کرکٹ کا انتظامی ڈھانچہ بدانتظامی کا شکار ہے۔ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے، اور کھلاڑی دباؤ میں کھیلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وراٹ کوہلی، رکی پونٹنگ، سچن ٹنڈولکر، برائن لارا جیسے عظیم کھلاڑی ہمیشہ دباؤ کے لمحات میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں، جبکہ پاکستانی کھلاڑی آسان مواقع پر بھی ناکام ہو رہے ہیں۔

آج کل ٹیمیں پاور ہٹنگ پر بہت زور دے رہی ہیں اور تقریباً ہر ٹیم میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو ابتدائی اووروں میں دائرے سے باہر فیلڈروں کی محدود تعداد سے فائدہ اٹھا کر تیزی سے سکور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا کوئی پاور ہٹر موجود نہیں ہے۔ جو کھلاڑی ہٹنگ کرتے بھی ہیں تو وہ بہت بڑا رسک لے کر شاٹس لگاتے ہیں۔ ایک آدھ چھکا لگ گیا تو خیر، ورنہ باؤنڈری پر فیلڈر کے ہاتھ میں کیچ تھما دیتے ہیں۔

اس کے لیے علاوہ پاکستانی ٹیم کا ایک بہت بڑا مسئلہ ڈاٹ بالز ہے۔ ہمارے بلے باز گیند کو گیپ میں کھیل کر سنگل ڈبل لینے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پےدرپے رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستانی کرکٹ کو اگر مستقبل میں ایسی رسوائیوں سے بچانا ہے تو درج ذیل اصلاحات ناگزیر ہیں:

  • سیاسی مداخلت ختم کی جائے: پی سی بی کو مکمل طور پر ایک پروفیشنل ادارہ بنایا جائے، جہاں میرٹ پر فیصلے ہوں۔
  • سیلیکشن میں شفافیت لائی جائے: پسند ناپسند کی بنیاد پر ٹیم منتخب کرنے کے بجائے کارکردگی کو معیار بنایا جائے۔
  • قائدانہ صلاحیتوں پر توجہ دی جائے: ایسا کپتان چنا جائے جو دباؤ برداشت کرنے اور مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
  • ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط کیا جائے: نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت اور ان کے اعتماد کی بحالی کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بہتر بنایا جائے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی ایک زوال پذیر نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر موجودہ انتظامی اور کرکٹنگ ڈھانچے میں فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو مستقبل میں بھی ایسی رسوائیاں ہمارا مقدر بنیں گی۔ وزیراعظم پاکستان کو پیٹرن ان چیف کے عہدے کو آئینی طور پر ختم کرنا چاہیے اور پی سی بی کو خود مختار ادارہ بنانے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔

کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، مگر شکست کو عادت بنا لینا سب سے بڑی ناکامی ہے۔ پاکستان کرکٹ کو اگر دوبارہ عروج پر لے کر جانا ہے تو روایتی سوچ کو خیرباد کہہ کر جدید کرکٹ کے تقاضوں کو اپنانا ہوگا۔ ورنہ، کرکٹ کا جنازہ مزید دھوم دھام سے نکلتا رہے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ