اسرائیلی فوج کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سات اکتوبر 2023 کو حماس اسرائیل پر اس وجہ سے حملہ کرسکی کیونکہ فوج اس کے ارادوں کو نہیں سمجھ پائی اور اس کی صلاحیتوں کو کم سمجھا۔
جمعرات کو جاری کی گئی اس رپورٹ کے نتائج وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پر دباؤ ڈال سکتے ہیں، کیونکہ بہت سے اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ سات اکتوبر کی ناکامیاں صرف فوج تک محدود نہیں بلکہ نتن یاہو کی ان پالیسیوں کا بھی نتیجہ ہیں جو اس حملے سے پہلے حماس کو روکنے اور محدود کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
وزیراعظم نتن یاہو نے اب تک اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور کہا ہے کہ وہ سخت سوالوں کے جواب صرف جنگ کے بعد دیں گے، جو تقریباً چھ ہفتوں سے ایک نازک فائر بندی معاہدے کے تحت رکی ہوئی ہے۔
سات اکتوبر کے حملے کے دوران مارے گئے 1200 افراد اور قیدی بنائے گئے 251 افراد کے اہل خانہ سمیت عوامی دباؤ کے باوجود نتن یاہو نے تحقیقات کے لیے کسی بھی کمیشن کے قیام کی مخالفت کی ہے۔
اسرائیلی فوج کی رپورٹ کے مطابق خطے کی سب سے طاقتور اور جدید فوج نے حماس کے ارادوں کو غلط انداز میں سمجھا، اس کی جنگی صلاحیتوں کو کم تر جانا اور وہ اس اچانک حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رپورٹ کے نتائج ان بیانات سے ملتے جلتے ہیں، جو اس سے قبل حکام اور تجزیہ کاروں نے دیے تھے۔ فوج نے رپورٹ کا صرف خلاصہ جاری کیا اور فوجی حکام نے اس کے نکات بیان کیے ہیں۔
ایک فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’سات اکتوبر کا حملہ مکمل طور پر ایک ناکامی تھا۔‘
تحقیقات کے مطابق ایک بنیادی غلط فہمی یہ تھی کہ حماس، جس نے 2007 میں فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کا کنٹرول حاصل کیا تھا، علاقے پر حکمرانی کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کرے۔ فوج نے اس کی صلاحیتوں کا بھی غلط اندازہ لگایا۔
فوجی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اگر حماس کوئی زمینی حملہ کرے گی تو وہ زیادہ سے زیادہ آٹھ سرحدی راستوں سے داخل ہو سکتی ہے، لیکن حقیقت میں حماس کے پاس حملے کے لیے 60 سے زائد راستے تھے۔
حملے کے بعد حاصل کی گئی انٹیلی جنس کے مطابق، حماس تین مختلف مواقع پر حملہ کرنے کے قریب تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے مؤخر کر دیا گیا۔
ایک عہدیدار کے مطابق، حملے سے چند گھنٹے قبل اس کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے تھے، جب حماس کے جنگجوؤں نے اپنے فونز کو اسرائیلی سم کارڈز پر منتقل کرنا شروع کیا۔
اس تاثر نے کہ حماس جنگ نہیں چاہتی، فیصلہ سازوں کو اس طرح کے اقدامات کرنے سے باز رکھا جو اس حملے کو ناکام بنا سکتے تھے۔ اسرائیلی فوجی عہدیدار نے کہا کہ انٹیلی جنس کے مطابق سات اکتوبر کے حملے کا منصوبہ بندی 2017 میں یحییٰ سنوار نے شروع کی تھی، جو گذشتہ اکتوبر میں مارے گئے تھے۔
چونکہ تعطیل کے موقعے پر فوج چوکنا نہیں تھی، لہذا حماس نے سینکڑوں راکٹ داغے، جس نے ہزاروں جنگجوؤں کو حفاظتی باڑ توڑ کر یا گلائیڈرز کے ذریعے اسے عبور کر کے اسرائیلی علاقے میں داخل ہونے کا موقع دیا۔ انہوں نے نگرانی کے کیمروں کو ناکارہ بنایا اور سرحد پر تعینات سینکڑوں فوجیوں پر تیزی سے غالب آ گئے۔
اس کے بعد، حماس کے جنگجو اہم شاہراہوں پر قابض ہو گئے اور علاقے میں تعینات فوجیوں، بشمول اعلیٰ افسران پر حملہ کیا، جس سے فوج کی کمان اور کنٹرول کا نظام درہم برہم ہو گیا۔
حملے کے ابتدائی تین گھنٹوں کے دوران حماس کے جنگجو سرحدی آبادیوں اور ایک میوزک فیسٹیول میں آزادانہ طور پر گھومتے رہے، جہاں سب سے زیادہ افراد کو قیدی بنایا گیا اور زیادہ تر افراد ہلاک ہوئے۔
فوج کو دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کئی گھنٹے اور علاقے کو مکمل طور پر حماس سے خالی کرنے میں کئی دن لگے۔
ایک فوجی عہدیدار کے مطابق، رپورٹ میں فوج کو حد سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہونے اور اپنے بنیادی تصورات اور مفروضوں پر شک نہ کرنے پر مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کسی مخصوص فوجی اہلکار یا افسر پر ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، لیکن یہ فوج میں احتساب اور ممکنہ برطرفیوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
کئی اعلیٰ فوجی افسران پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں، جن میں ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور اسرائیلی فوج کے سربراہ هرتسى هليفى بھی شامل ہیں، جو اگلے ہفتے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ ماہ حماس کے حملے کو روکنے میں ’ناکامی‘ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔