دارالعلوم حقانیہ میں خودکش حملہ، مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد چل بسے: پولیس

پولیس نے بتایا کہ ’ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب نمازِ جمعہ کے بعد لوگ مولانا حامد الحق سے ملنے کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے۔‘

پولیس کے مطابق جمعے کو نماز کے بعد نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں واقع مدرسہ دارالعلوم حقانیہ میں خودکش دھماکے سے نائب مہتمم اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد جان سے چلے گئے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق دھماکے میں نو افراد زخمی ہوئے، جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ 

نوشہرہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ واقعہ آج جمعے کی نماز کے فوراً بعد ہوا جب لوگ مسجد سے نکل رہے تھے۔ ایک خود کش بمبار نے داخلی راستے پر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’خودکش بمبار نے جو جیکٹ پہن رکھی تھی اس میں چھ، سات کلو بارود تھا۔ ہماری تفتیش جاری ہے۔ بہت جلد نتیجہ سامنے آئے گا۔‘

ڈی ایس پی نوشہرہ نے یہ بھی بتایا کہ ’مدرسے کے طلبہ چھٹی پر تھے ورنہ اموات زیادہ ہوتیں۔‘

اس سے قبل آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے بتایا تھا کہ ’ہمارے 17 اہلکار مدرسے اور چھ مولانا صاحب کی سکیورٹی پر مامور تھے جبکہ جمعے کے لیے الگ سکیورٹی دی جاتی ہے۔‘

’خودکش بمبار کا ہدف مولانا تھے‘

مولانا حامد الحق کے بھتیجے محمد احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’خودکش بمبار کا ہدف مولانا حامد الحق تھے۔‘

بقول محمد احمد: ’جب یہ واقعہ ہوا تو میں قریب ہی تھا۔ اپنے گھر کے گیٹ کے پاس تھا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ ساتھیوں نے آواز لگائی کہ مولانا حامد الحق صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ ہم نے جا کر دیکھا تو مولانا حامد الحق گرے ہوئے تھے، ہم جلدی سے ان کو اٹھا کر سی ایم ایچ نوشہرہ لے کر گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک مولانا سانس لیتے رہے لیکن اس کے بعد ساتھیوں نے بتایا کہ مولانا کی شہادت ہو گئی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’تقریباً 80 فیصد لوگ مسجد سے جا چکے تھے۔ خودکش بمبار مولانا کو ٹارگٹ کرنے کے لیے آیا تھا۔‘

اس سے قبل مولانا حامد الحق کے قریبی رشتے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’مسجد میں دھماکہ نماز کے بعد اس وقت ہوا، جب مولانا حامد الحق امامت کے بعد کھڑے ہوئے۔‘

رشتے دار کے مطابق نماز مدرسے کے اندر زیرِ تعمیر جامعہ مسجد کے اندر ادا کی جاتی ہے اور مولانا حامد الحق اسی مسجد کے پچھلے دروازے سے امامت کے لیے اندر جاتے ہیں، جن کے ساتھ پولیس کی سکیورٹی بھی موجود ہوتی ہے۔ 

انہوں نے بتایا: ’جوں ہی وہ نماز کے لیے آئے اور نماز ادا کی تو دھماکہ ہوگیا۔‘

رشتے دار کے مطابق ’پہلی صف میں عمومی طور پر مولانا کے ساتھ مدرسے کے علما کھڑے ہوتے ہیں اور دھماکے میں زیادہ تر علما جان سے گئے ہیں۔‘

وزیراعظم شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مولانا حامد الحق کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’مسجد میں دھماکے کے افسوس ناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’دشمن ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہا ہے۔ قوم کی حمایت سے دشمن کی ہر سازش ناکام بنائیں گے۔‘

دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے متعلقہ حکام سے اس افسوس ناک واقعے کی رپورٹ طلب کر لی۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو بروقت ریسکیو کرنے اور انہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔

انہوں نے حکام کو یہ ہدایات بھی دیں کہ اس ’دلخراش واقعے میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دارالعلوم حقانیہ پر حملے اور مولانا حامد الحق سمیت دیگر افراد کی موت پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے۔‘

ایکس پر اپنے پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعے کی حرمت پامال کی۔ خیبرپختونخوا میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں، مگر ریاست خاموش تماشائی ہے۔‘

اسلام آباد میں واقع افغان سفارت خانے نے بھی دارالعلوم حقانیہ میں ہونے والے دھماکے کی شدید مذمت کی۔

سفارت خانے نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا: ’افغان سفارت خانہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہونے والے دھماکے کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے ایک بزدلانہ فعل قرار دیتا ہے۔ اس دھماکے میں جامعہ کے نائب صدر اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے رہنما مولانا حامد الحق حقانی سمیت کئی دیگر اساتذہ اور طلبہ شہید ہو گئے ہیں۔‘

مدرسہ حقانیہ کی تاریخ

افغانستان میں روس کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے مدرسہ حقانیہ کے کردار کو نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا میں اس مدرسے کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق، جنہیں نومبر 2018 میں اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا، کو بعض اوقات ’طالبان کے باپ‘ کے نام سے بھی پکارا گیا۔

اس مدرسے کی تاریخ کے حوالے سے مدرسے کے پروفیسر مولانا عرفان الحق نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا تھا کہ مدرسے کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد 23 ستمبر1947 کو شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے رکھی، جو تقسیم ہند سے پہلے دارالعلوم دیوبند میں استاد تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان