جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے باورچی خانے میں روزانہ طلبہ کے لیے تین سوگرام وزن کی چھ ہزار روٹیاں پکائی جاتی ہے جبکہ ہفتے میں تین دن گوشت اور ایک دن مرغ کا سالن کھلایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے کچن کے منتظم مولانا شوکت علی حقانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مدرسے کے لیے باورچی خانے میں روٹی کا بندوبست کرنے کا تندور والے کو ٹھیکہ دیا ہواہے۔ وہ مدرسے کو روزانہ 300 گرام وزن کی چھ ہزار تک روٹیاں فراہم کرتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’سالن کا انتظام مدرسہ خود کرتا ہے جس کے لیے روزانہ بڑے پانچ پتیلے تیار کیے جاتے ہیں۔ جن میں ایک سوبیس کلو آلو اور80 کلو گوشت پکایا جاتا ہےاور دن میں دو من چنے یا لوبیے 54 کلو گھی اورپانچ کلو مصالحے میں تیار کیا جاتا ہے اور اس طرح سبزی بھی تیار کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کے لیےمطبخ (لنگر) کا کارڈ بنایا گیا ہے جس کا اندراج لنگر میں ہوتا ہے۔‘
شوکت علی حقانی نے کہا کہ ’مدرسے کی جانب سے طلبہ کو دوپہراورشام کے کھانے کا انتظام کرتا ہے اورمدرسے میں مقیم طلبہ کو مفت دیا جاتا ہے انہوں نےکہا کہ لنگرکا خرچہ ماہانہ 31 لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔‘
مدرسہ حقانیہ جس کو افغان جنگ میں جلال الدین حقانی اور دیگر طالبان کمانڈرز جو کہ اس مدرسے سے فارغ التحصیل تھے، کی وجہ سے پورے دنیا میں پہچانا جاتا ہے، ضلع نوشہرہ کےعلاقہ اکوڑہ خٹک مین جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔
سابق سینیٹرمولانا سمیع الحق کے صاحبزادے اورمدرسہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامدالحق حقانی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی مستقل بنیاد ہمارے دادا شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان آزاد ہونے کے چند دن بعد1947 میں رکھی تھی۔ اس سے پہلے ہمارے دادا اکوڑہ خٹک کے مین بازار میں واقع ایک مسجد میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔‘
ان کے مطابق ’بعد میں میں اکوڑہ خٹک کے کچھ لوگوں نے زمین وقف کی اور کچھ مولانا عبدالحق نے لوگوں کے ہمراہ چندہ کر کے زمین خریدی اور یہ مسجد جی ٹی روڈ شاہراہ پاکستان پر منتقل کر دی گئی جو بعد میں پھیلتے پھیلتے ایک اسلامی یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گئی اور اب یہ اسلامی یونیورسٹی ڈیڑھ سو کنال کے قریب رقبے پر آباد ہے۔‘
مدرسے میں طلبا کی تعداد
مولانا حامدالحق کا کہنا ہے کہ ’مدرسے میں چھوٹے بڑے طلبا و وطالبات، بنات کے شعبہ اورسکول کے طلبہ کل ملا کر پانچ ہزار تک طلبا اس وقت پڑھ رہے ہیں۔ جس میں تین ہزار تک ہاسٹل میں رہتے ہیں اورتقریباً دو ہزار طلبا و طالبات مختلف علاقوں کو اور اکوڑہ خٹک کے شہر میں واپس چلے جاتے ہیں۔‘
نائب مہتمم کا کہنا ہے کہ ’رہائش کے لیے ہاسٹل کی عمارت بنائے گئی ہے۔ لنگر کا انتظام، اساتذہ اور انتظامیہ کی تنخواہیں بجلی، سوئی گیس اور مدرسے کے سارے اخراجات جو کروڑوں میں ہیں، وہ پاکستان کے عوام الناس پورے کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طلبا میں صرف غریب فقرا نہیں ہوتے کئی بڑے اور اچھے اچھے خاندانی اور امیرلوگوں کے بیٹے ہوتے ہیں۔ جو ایم ایس سی، ڈاکٹریٹ اورانجینئرنگ کی ڈگریاں لے کر مدرسے آ جاتے ہیں اور جس کو ہم پشتو میں چنڑے کہتے ہیں۔ یہ لوگ ادنیٰ طالب علم بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یا انجینئرادنیٰ درجہ اختیار کرکے درجہ اولیٰ میں وہ بیٹھ جاتے ہیں اور یہاں پر آٹھ یا دس سال مفتی بننے تک ہاسٹل میں رہتے ہیں۔‘
مدرسے میں لوگ کب داخلہ لیتے ہیں؟
نائب مہتمم مولانا حامدالحق نے کہا کہ ’شوال سے ہمارا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے اور ہم 15 شوال سے پورے دارالعلوم میں کلاسز شروع کر دیتے ہیں۔ شعبان کے وسط سے سال کا اختتام ہوتا ہے جو نو دس مہینے کے وقت میں تین تین ماہ کے تین سمسٹر ہوتے ہیں۔ شعبان کے آخرمیں وفاق المدارس کے اعلیٰ سطح کے امتحان ہوجاتے ہیں جس کے بعد دو ڈھائی ہزار فارغ التحصیل طلبہ کی دستار بندی ہوتی ہے۔‘
کیا مدرسے کا سالانہ بجٹ تیار کیا جاتا ہے؟
حامدالحق نے کہا کہ ’مدرسے کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے جس کے لیےمہتمم مدرسہ مولانا انورالحق اور میں مل کر شوریٰ کے سامنے بجٹ پیش کرتے ہے جس میں خیبرپختونخوا اور پاکستان کے بڑے خاندانی علما اور بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مدرسے کے بجٹ نظام میں تین سو افراد کی شوری بیٹھتی ہے ہم اور ساری چیز قوم کے سامنے رکھتے ہیں۔ ہم بجٹ کا آغاز راولپنڈی کے ایک ادارے سے کراتے ہیں۔‘
مدرسہ حقانیہ سے فارغ التحصیل مذہبی رہنماؤں میں کون کون شامل ہیں؟
مولانا حامدالحق نے کہا کہ ’دارلعلوم حقانیہ سے پاکستان کی سطح پر سب سے زیادہ پہچانے والے میرے والد سابق سینیٹر اور مدرسے کے سابق مہتمم مولانا سمیع الحق اور شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ مدنی جو کہ سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ تھے۔‘
ان کے مطابق ’اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح کے رہنماؤں میں مولانا جلال الدین حقانی بھی اسی مدرسے سے فارغ التحصیل تھےاور یہاں پر استاد تھے۔
’مولانا یونس خالص جو کہ افغانستان کے عبوری صدر بھی رہے تھے وہ اسی مدرسے کے طالب علم تھے جب کہ پاکستانی سیاست کی ایک اہم شخصیت مولانا فضل الرحمن بھی دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔‘
کیا افغان حکومت میں دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل افراد شامل ہیں؟
حقانیہ کے نائب مہتم مولانا حامدالحق کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کی صوبوں اور مرکزی انتظامیہ میں کئی علما شامل ہیں جو حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں جو حکومتی سطح پر امارات اسلامی میں مختلف خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔‘