وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے دفاعی اداروں پر لگائی گئی پابندیوں کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا واحد مقصد پاکستان کا دفاع ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کے بعد ارکان ممبران سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’نیشنل ڈیفنس کمپلیس اور دیگر پاکستانی اداروں پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اُن کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پاکستان قطعی طور پر کوئی ایسا ارادہ نہیں رکھتا جہاں ہمارا جوہری نظام جارحانہ ہو۔ ہمارا جوہری نظام مکمل طور پر دفاعی ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کا دفاع ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کا جوہری پروگرام کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ ملک کے 24 کروڑ عوام کا ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں گا اور پاکستان کا اس پر مکمل اتفاق ہے۔‘
’امریکی پابندیوں سے پاکستان کے دفاع پر کوئی فرق نہیں پڑے گا‘
اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے واضح کیا تھا کہ امریکی پابندیوں سے نہ تو پاکستان کے دفاع پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی دفاعی فیصلے متاثر ہوں گے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے پیر کی شب گفتگو کرتے ہوئے ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان پر کئی پابندیاں لگائی گئیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اپنی سکیورٹی پر توجہ مرکوز رکھی اور اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی کا فیصلہ صرف اور صرف پاکستانی قوم کرے گی۔
ترجمان نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کو غیر ضروری اور ناانصافی پر مبنی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی ایسا عندیہ نہیں دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتا ہے جو جنگ یا میزائل کے استعمال کی ضرورت کو جنم دیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے نشاندہی کی کہ خطے میں میزائل اور جوہری ٹیکنالوجی کی دوڑ انڈیا نے شروع کی اور عالمی طاقتوں کو انڈیا کے خلاف اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
امریکی پابندیاں
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
18 دسمبر کو امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ان پابندیوں میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس کے علاوہ تین نجی تجارتی ادارے شامل ہیں، جن میں ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز، اور روک سائیڈ انٹرپرائز شامل ہیں۔
پاکستان نے 19 دسمبر کو امریکی پابندیوں کے فیصلے کو ’متعصبانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کا سٹریٹجک پروگرام 24 کروڑ عوام کی جانب سے اپنی قیادت کے لیے مقدس امانت ہے۔ جو سیاسی جماعتوں کے تمام حلقوں میں بلند ترین مقام رکھتی ہے اور کسی صورت بھی متاثر نہیں ہو سکتی۔‘
’پابندیاں بے معنی اور اور امتیازی ہیں‘
تخفیف اسلحہ و عدم پھیلاؤ کے امور کے ماہر سمجھے جانے والے سابق سفیر ضمیر اکرم نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان پابندیوں کو ’امتیازی‘ لیکن ’بے معنی‘ قرار دیا تھا۔
دفاعی و جوہری امور تجزیہ کار شیریں مزاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’امریکی پابندیاں ہمارے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گی کیونکہ ہم اپنے کسی بھی میزائل کے لیے امریکی یا مغربی ٹیکنالوجی کے کسی بھی جزو پر انحصار نہیں کرتے۔‘
یورپی یونین کے تحفظات پر دفتر خارجہ کا جواب
علاوہ ازیں، فوجی عدالتوں کے حوالے سے یورپی یونین کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا آئین اور عدالتی نظام اندرونی معاملات حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، اور پاکستانی قوم اپنے مسائل کو حل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔
امریکی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں پاکستانی فوجی عدالتوں میں مقدمات کی شفافیت اور عدالتی آزادی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ دفتر خارجہ نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم اپنے مسائل خود حل کرنا جانتی ہے اور آئین میں ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔