اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو موجودہ عالمی، علاقائی تنازعات اور بحرانوں کی وجہ سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنا کام کرنے کے لیے زیادہ شفاف اور جامع ہونا چاہیے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق پاکستان کے سفیر نے سلامتی کونسل میں اصلاحات سے متعلق طویل عرصے سے جاری بین الحکومتی مذاکرات کے تحت ’کام کے طریقہ کار‘ پر ہونے والی بحث میں پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ سب اس 15 رکنی ادارے کی جلد تنظیمِ نو پر متفق ہیں لیکن ’مستقبل کے معاہدے‘جسے عالمی رہنماؤں نے گذشتہ ستمبر میں منظور کیا، میں تمام اقوام متحدہ کے نظام جس میں جنرل اسمبلی، اقتصادی و سماجی کونسل اور قیام امن کمیشن بھی شامل ہیں، کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا۔
اسی لیے پاکستانی سفیر نے اقوام متحدہ کے تمام اداروں میں اصلاحات کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی تجویز دی۔ بحث کے دوران ’نئے حقائق‘ پر غور کرنے کی تجویز کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے سلامتی کونسل ایک بار پھر مخصوص وقت میں، 1945 کے فریم ورک میں منجمد ہو جائے گی۔ یہ وہی وقت ہے جب یہ عالمی ادارہ قائم کیا گیا۔
پاکستانی سفیر کے مطابق: ’کسی بھی مستقل ارکان کے اضافے سے سلامتی کونسل اسی لمحے منجمد ہو جائے گی۔ صرف انتخابی عمل کے ذریعے ہی ان نئی حقیقتوں کی عکاسی کی جا سکتی ہے جو مسلسل بدلتی رہتی ہیں، نہ کہ نئے مستقل ارکان شامل کر کے۔‘
وہ واضح طور پر انڈیا، برازیل، جرمنی اور جاپان، جنہیں گروپ آف فور کہا جاتا ہے، کی بھرپور مہم کا حوالہ دے رہے تھے۔
یہ ممالک سلامتی کونسل میں 10 نشستوں کے اضافے کے خواہاں ہیں جن میں اضافی چھ مستقل اور چار غیر مستقل نشستیں ہوں۔
دوسری جانب، اٹلی اور پاکستان کی قیادت میں قائم یونائٹنگ فار کنسنسس گروپ (یو ایف سی) جو نئے مستقل ارکان کے اضافے کا سختی سے مخالفت ہے، نے ایک ارکان کی ایک نئی کیٹیگری کی تجویز دی ہےجو مستقل نہیں ہوں گے لیکن ان کی مدت رکنیت طویل ہوگی اور دوبارہ منتخب ہونے کا امکان بھی ہوگا جس سے منتخب نشستوں کی تعداد بڑھ کر 21 ہو جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت سلامتی کونسل پانچ مستقل ارکان برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ اور 10 غیر مستقل ارکان پر مشتمل ہے جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ سالہا سال کی بحث و مباحثے سے اصلاحات کے مختلف پہلوؤں پر اتفاق اور اختلاف دونوں سامنے آئے ہیں۔ اتفاق اس بات پر ہے کہ افریقہ کو ترجیح دی جائے، ترقی پذیر ممالک کی رکنیت میں اضافہ کیا جائے، اور علاقائی و بین العلاقائی گروپوں کی نمائندگی کی ضرورت کو تسلیم کیا جائے۔
’لیکن ان مباحثوں اور پیش کیے گئے ماڈلز نے اختلافات کو بھی واضح کیا اور یہ اختلافات خاصے نمایاں ہیں جن میں سلامتی کونسل کے حجم، رکنیت کی کیٹیگریز، علاقائی نمائندگی، ویٹو کے اختیار اور حتیٰ کہ کام کے طریقہ کار جیسے امور شامل ہیں۔ اس آخری نکتے پر بڑی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے۔‘
کام کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے منیر اکرم نے شفافیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلی نشستیں، زیادہ باہمی تعامل پر مبنی کھلی نشستیں ہوں نہ کہ وہ رسمی بیانات جو، ان کے بقول، بغیر کسی عملی تبادلہ خیال اور سلامتی کونسل کی کارروائی کے بارے میں محض رسمی طور پر دیے جاتے ہیں۔
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت کی ضرورت ہے اور اسے منتخب ارکان کے کردار کے ذریعے شامل کیا جا سکتا ہے، نہ کہ مستقل ارکان کے ذریعے۔
’ہمیں منتخب ارکان کے لیے ایک وسیع تر کردار متعین کرنا ہوگا اور سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہوگا۔‘