ٹی ٹی پی پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے: منیر اکرم

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش خراسان پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش خراسان پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ 

انہوں نے ویڈیو نیوز سروسز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’داعش خراسان کا دہشت گردی کا نظریہ پوری دنیا کے لیے ہے، ٹی ٹی پی کی وابستگی القاعدہ کے ساتھ ہے۔

’القاعدہ کا بھی عالمی ایجنڈا ہے۔ اس وقت ان کے حملوں کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ ہمیں یہ شبہ اور ڈر ہے کہ دہشت گردی پورے خطے میں پھیلے گی۔‘

اس قبل جولائی میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی ایک رپورٹ نے کہا گیا تھا کہ سابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘ ہے اور اسے پاکستان میں سرحد پار حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرگرم ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہی ہے جس میں اکثر اوقات افغان شہری استعمال ہوتے ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چھ تا ساڑھے چھ ہزار جنگجوؤں کے ساتھ سرگرم ہیں۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغان طالبان ’تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو سنبھالنے میں ناکام یا نااہل ثابت ہوئے ہیں۔‘ اور یہ کہ ’طالبان کی ٹی ٹی پی کو حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

مزید یہ کہ ’طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے، ان کے تعلقات قریبی ہیں، اور طالبان پر ٹی ٹی پی کا بہت بڑا قرض ہے۔‘

رپورٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی مندوب کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی کو ایک طرح کا استثنیٰ دیا گیا ہے۔ چوں کہ ٹی ٹی پی کا تعلق القاعدہ کے ساتھ ہے اس لیے دہشت گردی پاکستان کو متاثر کرے گی اور خطے سمیت پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے۔

’ہمارا مؤقف ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور عالمی برداری کارروائی کرے۔ یہ کارروائی نہ صرف داعش خراسان کے خلاف ہو بلکہ ٹی ٹی پی کے خلاف بھی ہو۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارا لائحہ عمل تین خطوط پر ہو گا۔ پہلا قومی سطح پر کارروائی کرنا۔ اس حکمت عملی کے تحت ہم جو براہ راست کارروا ئی کر رہے ہیں وہ تو کریں گے اور دہشت گرد حملے روکیں گے۔

’اس کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ رابطہ جاری رکھا جائے گا۔ ہم انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد نہ صرف پاکستان کی سلامتی پر اثر انداز ہوں گے بلکہ خطے کو متاثر کریں گے جس سے افغانستان کے خطے ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ افغان حکومت کا استحکام بھی زد میں آئے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کیونکہ دہشت گرد جب زور پکڑتے ہیں تو پھر ان کی خواہشات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

’دوسری سطح پورا خطہ ہے جہاں ہمارے دو پلیٹ فارمز ہیں۔ پہلا چار فریقی پلیٹ فارم ہے جس میں روس، چین، ایران اور پاکستان شامل ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے تحت بھی اجتماعی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔

’دوسرا علاقائی پلیٹ فارم ہے جس میں چھ ہمسایہ ممالک شامل ہیں۔ ان ملکوں میں روس، چین سمیت افغانستان کے قریب ترین ہمسائے شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ دو پلیٹ فارمز ہیں جنہیں ہم استعمال کریں گے تاکہ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے کہ نہ صرف داعش بلکہ ٹی ٹی پی سمیت دوسری تنظمیں جو دوسرے ہمسایہ ممالک کے لیے خطرہ ہیں ان سب کے خلاف سیاسی اور اجتماعی سطح پر کارروائی کی جائے۔‘

منیر اکرم کا مزید کہنا تھا کہ ’تیسری بین الاقوامی سطح ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے تحت ہم جو ایکشن لے سکتے ہیں دہشت گردی تنظیموں کے خلاف وہ کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔

’یہاں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ افغان حکومت کو قائل کیا جائے کہ اگر آپ نے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہ کیا تو آپ کے دنیا کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انسانی حقوق اور سیاسی شمولیت کے معاملات بھی ہیں ان میں سب سے اہم بات یہ کہ عالمی برداری چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ہم نے سب کو قائل کرنا ہے۔

’سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور پوری دنیا کو قائل کرنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ترجیح ہے۔ پوری عالمی برداری اتفاق رائے کے ساتھ اس ضمن میں کارروائی کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عبوری افغان حکومت کو باور کروانا ہے جب تک دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا تب افغانستان میں حالات معمول پر آئیں گے اور نہ ہی افغانستان کے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات نارمل ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا