آسٹریلیا: ’لاکھوں بچوں کو بچانے والے خون کے عطیہ دہندہ کا انتقال

آسٹریلیا کے جیمز ہیری سن نے چھ دہائیوں میں 1100 سے زیادہ بار خون عطیہ کر کے 20 لاکھ سے زائد بچوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کی۔

جیمز ہیری سن ’سنہرے بازو والے شخص‘ کے نام سے بھی مشہور تھے (آسٹریلیا ریڈ کراس لائف بلڈ)

جیمز ہیری سن، جنہوں نے چھ دہائیوں میں 1100 سے زیادہ بار خون عطیہ کر کے 20 لاکھ سے زائد بچوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کی، 88 سال کی عمر میں چل بسے۔

آسٹریلوی ریڈ کراس لائف بلڈ کے مطابق ہیری سن، جو ’سنہرے بازو والے شخص‘ کے نام سے بھی مشہور تھے، ان کے ’خون میں ایک قیمتی اینٹی باڈی موجود تھی، جسے ’جان بچانے والی دوا اینٹی ڈی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ 

یہ دوا ان ماؤں کو دی جاتی جن کے خون میں ایسا مسئلہ ہوتا جس کی وجہ سے ان کے ابھی پیدا نہ ہونے والے بچوں کی جان خطرے میں ہوتی۔‘

ہیری سن کی موت 17 فروری کو نیو ساؤتھ ویلز سنٹرل کوسٹ کے پیننسولا ولیج نرسنگ ہوم میں نیند کے دوران واقع ہوئی۔

انہوں نے 1954 میں 18 سال کی عمر میں خون عطیہ کرنا شروع کیا اور باقاعدگی سے یہ عمل جاری رکھا، یہاں تک کہ 2018 میں 81 سال کی عمر میں یہ کام چھوڑ دیا۔ 

آسٹریلوی ریڈ کراس لائف بلڈ کے مطابق انہوں نے 24  لاکھ سے زیادہ آسٹریلوی بچوں کی جان بچانے میں مدد کی۔ ہیری سن کی بیٹی ٹریسی میلوشپ نے انہیں ایک دریا دل انسان اور شاندار حس مزاح رکھنے والی شخصیت کے طور پر یاد کیا۔

میلوشپ نے کہا کہ ’جیمز دل سے انسان دوست تھے، لیکن ساتھ ہی بےحد مزاحیہ بھی۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ بے حد خوش تھے کہ وہ دو خوبصورت پڑپوتے، پوتی، ٹرے اور ایڈیسن، کے پڑدادا بنے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں خود اینٹی ڈی لے چکی ہوں۔ اس لیے وہ ایسا خاندان چھوڑ کر گئے جو شاید ان کے قیمتی عطیات کے بغیر وجود میں نہ آتا۔

’وہ اس بات پر بھی بہت فخر محسوس کرتے تھے کہ انہوں نے بے شمار جانیں بچائیں، بغیر کسی قیمت یا تکلیف کے۔ 

’انہیں یہ سن کر خوشی ہوتی تھی کہ ہماری طرح کے بہت سے خاندان ان کی شفقت کی بدولت وجود میں آئے۔

’وہ ہمیشہ کہتے کہ خون دینا تکلیف دہ نہیں اور جس جان کو آپ بچا رہے ہیں وہ آپ کی اپنی بھی ہو سکتی ہے۔‘

ہیری سن کے نایاب اینٹی باڈیز اینٹی ڈی کی تیاری میں انتہائی اہم ثابت ہوئے۔ 

یہ ایسی دوا ہے جس نے لاکھوں نوزائیدہ بچوں کو ریسس (جنین اور نوزائیدہ بچے کے خون کے مرض) میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھا۔

یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں حاملہ عورت کے خون میں موجود اینٹی باڈیز بچے کے سرخ خون کے خلیوں پر حملہ کر سکتی ہیں، جس سے دماغی نقصان یا حتیٰ کہ موت واقع ہو سکتی ہے۔

یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ماں کا خون  آر ایچ ڈی نیگیٹیو ہوتا ہے جب کہ بچے کو والد سے آر ایچ ڈی پازیٹیو خون وراثت میں ملتا ہے۔

اگر ماں پہلے سے آر ایچ ڈی پازیٹیو خون کے معاملے میں حساس ہو چکی ہو، جو اکثر گذشتہ حمل کے دوران ہوتا ہے، تو اس کا مدافعتی نظام اینٹی باڈیز پیدا کر سکتا ہے، جو بچے کے خون کو جسم سے باہر کا خطرہ سمجھ کر اس پر حملہ کر دیتی ہیں۔

لائف بلڈ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’جیمز ہمارے اینٹی ڈی پروگرام کے بانی تھے۔ 1967 سے اب تک ان کے خون سے تیار کردہ اینٹی ڈی کی 30 لاکھ  سے زائد خوراکیں ان آسٹریلوی ماؤں کو دی جا چکی ہیں جن کا خون نیگیٹو گروپ کا تھا۔‘

ربیکا انڈ نے، جو 12 سال قبل حمل کے دوران اور بعد میں ہیری سن کے خون کے عطیات سے مستفید ہوئیں، کہا: ’انہوں نے میری دنیا بدل دی اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے بے شمار دیگر خاندانوں کے لیے بھی ایسا ہی کیا، جو انہیں ایک غیرمعمولی انسان بناتا ہے۔‘

1999 میں جیمز ہیری سن کو آسٹریلیا کے سب سے بڑے اعزازات میں سے ایک میڈل آف دی آرڈر آف آسٹریلیا سے نوازا گیا، جو انہوں نے لائف بلڈ اور اینٹی ڈی پروگرام کے لیے غیرمعمولی خدمات کے اعتراف میں حاصل کیا۔

لائف بلڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ان کی مہربانی ایک غیرمعمولی ورثہ چھوڑ گئی اور انہوں نے آسٹریلوی برادری کو چیلنج دیا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھے۔‘

ہیری سن نے 81 سال کی عمر میں خون کے آخری عطیے پر کہا: ’مجھے امید ہے کہ یہ ریکارڈ کوئی توڑے گا کیوں کہ اس کا مطلب ہوگا کہ وہ بھی اسی مقصد کے لیے پوری طرح وقف ہے۔‘

ہیری سن نے اس وقت کہا تھا کہ ’یہ بڑی عاجزی کا باعث بنتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ ’اوہ، آپ نے یہ کیا، آپ نے وہ کیا، یا آپ ایک ہیرو ہیں۔‘ 

’یہ بس ایک کام ہے جو میں کر سکتا ہوں۔ شاید میری واحد خوبی یہی ہے کہ میں خون عطیہ کر سکتا ہوں۔‘

14 سال کی عمر میں ہیری سن نے سینے کی بڑی سرجری کرائی اور ان کی جان بچانے کے لیے خون عطیہ کرنے والوں کی فراخدلی پر انحصار کرنا پڑا۔

زندگی بچانے والے عطیہ دہندگان کے احسان کا بدلہ چکانے کے لیے انہوں نے عہد کیا کہ جیسے ہی وہ اس قابل ہوں گے وہ خون عطیہ کریں گے اور 18 سال کی عمر میں انہوں نے سوئی کے اپنے خوف کے باوجود اپنا وعدہ پورا کیا۔

ایک دہائی بعد ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ ان کے خون میں ایک نایاب اینٹی باڈی موجود ہے جو اینٹی ڈی دوا کے ٹیکے تیار کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

دوسروں کی مدد کے جذبے کے تحت ہیری سن نے رضاکارانہ طور پر پلازمہ عطیہ کرنا شروع کر دیا تاکہ ان کا خون زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچا سکے۔

لائف بلڈ کے چیف ایگزیکٹیو فیسر سٹیفن کورنیلی سن نے آسٹریلیا کے چینل نائن نیوز کو بتایا کہ ’جیمز غیرمعمولی، صبر و تحمل کرنے والے مہربان اور فیاض شخص تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی عطیہ دینے کے عزم کے ساتھ گزاری اور دنیا بھر میں بے شمار لوگوں کے دل جیتے۔

’جیمز کا ماننا تھا کہ ان کے عطیات کسی اور عطیہ دہندہ سے زیادہ اہم نہیں اور ہر کوئی اسی طرح خاص ہو سکتا ہے جیسے وہ تھے۔

’جیمز نے اپنی بانہیں ان لوگوں اور بچوں کی مدد کے لیے کھول دیں، جنہیں وہ کبھی نہیں جانتے تھے اور حیران کن طور پر 1173 بار خون عطیہ کیا، بغیر کسی صلے کی توقع کے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روبن بارلو آسٹریلیا کے آر ایچ  پروگرام کی کوآرڈینیٹر تھیں۔ یہ پروگرام جنین اور نوزائیدہ بچے کی خون کی بیماری (ایچ ڈی ایف این)  کو روکنے کے لیے بنایا گیا۔ روبن بارلو بتایا کہ وہ ہیری سن کو بطور عطیہ دہندہ بھرتی کرنے کے بعد تقریباً 60 سال تک ان کی دوست رہیں۔

انہوں نے سیون نیوز ڈاٹ کام ڈاٹ اے یو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے میرا کام بہت آسان بنا دیا کیوں کہ وہ ہمیشہ عطیہ دینے کے لیے بےحد پرجوش رہتے تھے۔‘

روبن بارلو نے مزید کہا: ’مجھے ان کے معاملے میں کبھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ مجھے کبھی یہ فون نہیں کرنا پڑا کہ ’آپ کب آ رہے ہیں؟‘ ایسا کچھ نہیں تھا، وہ ہمیشہ میرے سامنے موجود ہوتے تھے۔‘

2015 میں این پی آر کو انٹرویو میں جیمز ہیری سن نے کہا  کہ ’مجھے ہمیشہ عطیہ کرنے کا انتظار رہتا تھا، سرجری کے بعد سے ہی کیوں کہ میں نہیں جانتا کہ میری جان بچانے کے لیے کتنے لوگوں نے خون دیا۔‘

متعدد رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر پوری طرح یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہیری سن کے خون میں یہ نایاب اینٹی باڈی کیسے پیدا ہوئی، لیکن یہ امکان ظاہر کیا گیا کہ 14 سال کی عمر میں سرجری کے بعد کیے گئے انتقال خون کا اس سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

آسٹریلوی ریڈ کراس لائف بلڈ (جو اس وقت آسٹریلین ریڈ کراس بلڈ سروس کہلاتی تھی) سے تعلق رکھنے والی جیمہ فالکن مائر نے 2015 میں سی این این کو بتایا: ’آسٹریلیا میں جتنی بھی اینٹی ڈی دوا تیار کی گئی وہ سب جیمز ہیری سن کے خون سے بنی۔

’اور آسٹریلیا میں 17 فیصد سے زیادہ خواتین کو اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس طرح جیمز نے بے شمار زندگیاں بچانے میں مدد دی۔‘

آسٹریلوی ریڈ کراس لائف بلڈ کے مطابق آسٹریلیا میں 200 سے بھی کم افراد اینٹی ڈی عطیہ کرتے ہیں لیکن ان کے عطیات ہر سال تقریباً 45000 ماؤں اور بچوں کی جان بچانے میں مدد دیتے ہیں۔

میلبرن کے والٹر اینڈ الائزا ہال انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ (ڈبلیو ای ایچ آئی) کے سائنس دان لائف بلڈ کے تعاون سے ’جیمز اِن اے جار‘  نامی ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد لیبارٹری میں اینٹی ڈی اینٹی باڈی تیار کرنا ہے۔

لائف بلڈ کے مطابق ہیری سن اور دیگر عطیہ دہندگان کے خون اور مدافعتی خلیات کا استعمال کرتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے کامیابی سے اینٹی باڈی کو دوبارہ پیدا کر کے پروان چڑھایا۔

یہ انقلابی پیش رفت ایک دن جنین اور نوزائیدہ بچے کی خون کی بیماری کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور نہ صرف آسٹریلیا بلکہ دنیا بھر کی حاملہ خواتین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت