امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی کے ساتھ گذشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کے دوران تکرار کے بعد یوکرین کے لیے تمام فوجی امداد روک دی ہے، جس سے ماضی کے دونوں اتحادیوں کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پیر کو وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’صدر ٹرمپ واضح طور پر امن پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شراکت دار بھی اسی مقصد کے لیے سنجیدہ ہوں۔ ہم اپنی امداد کا ازسرِنو جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کیا یہ کسی ٹھوس حل میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔‘
وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ معطل کی گئی امداد کی مالیت کتنی ہے اور یہ معطلی کب تک جاری رہے گی۔
امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) بھی مزید تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر رہا۔
زیلنسکی کے دفتر اور واشنگٹن میں یوکرینی سفارت خانے نے فوری طور پر اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ٹرمپ جنوری میں صدارت سنبھالنے کے بعد یوکرین اور روس سے متعلق امریکی صدر کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی۔
انہوں نے ماسکو کے لیے زیادہ لچ کدار رویہ اپنایا۔
پیر کو، ٹرمپ اس بات پر زور دیا کہ زیلنسکی کو امریکی امداد پر زیادہ قدر شناسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایسوسی ایٹڈ پریس نے زیلنسکی کا ایک تبصرہ شائع کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’جنگ کا خاتمہ ابھی بہت، بہت دور ہے۔‘
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر سخت ردعمل دیتے ہوئے لکھا: ’یہ زیلنسکی کا بدترین بیان تھا، اور امریکہ اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرے گا!‘
ٹرمپ: یوکرین کے معدنی وسائل پر امریکی سرمایہ کاری کا امکان برقرار
ٹرمپ نے پیر کو اشارہ دیا کہ امریکہ اب بھی یوکرین کے معدنی وسائل میں سرمایہ کاری کے معاہدے پر بات چیت کر سکتا ہے، حالانکہ کیئف کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب یورپی رہنماؤں نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کی تجاویز پیش کی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کو امریکہ کے لیے یوکرین کو دی گئی اربوں ڈالر کی مالی اور فوجی امداد کی جزوی واپسی کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے، جو واشنگٹن نے روسی حملے کے بعد فراہم کی تھی۔
جب پیر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ آیا یہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے، تو انہوں نے جواب دیا: ’نہیں، میں ایسا نہیں سمجھتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ نے اسے ’امریکہ کے لیے ایک شاندار معاہدہ‘ قرار دیا اور اعلان کیا کہ وہ منگل کی رات کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اس پر تازہ اپڈیٹ دیں گے۔
غیر جانبدار تنظیم کمیٹی فار اے ریسپانسبل فیڈرل بجٹ کے مطابق امریکی کانگریس نے گذشتہ تقریباً تین سال میں روسی حملے کے بعد سے یوکرین کے لیے کل 175 ارب ڈالر کی امداد کی منظوری دی ہے۔
دسمبر میں، صدر جو بائیڈن نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے عین قبل یوکرین کے لیے اضافی 5.9 ارب ڈالر کی سکیورٹی اور بجٹ امداد کا اعلان کیا تھا۔
امریکی امداد میں فوجی اور مالی معاونت شامل ہے، جس کا بڑا حصہ ورلڈ بینک ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ فنڈز امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے تحت دیے گئے، مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکی امداد کا کچھ حصہ یوکرین میں اساتذہ اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی ادائیگی، اور حکومتی اداروں کے انتظامی اخراجات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ یوکرین اپنی توجہ روس کے خلاف جنگ پر مرکوز رکھ سکے۔
وائٹ ہاؤس کے امداد روکنے کے فیصلے سے پہلے، یورپی ممالک زیلنسکی کے ساتھ کھڑے تھے اور جنگ بندی کے منصوبے پر غور کر رہے تھے۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ترجمان نے کہا: ’مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔‘
فرانس، برطانیہ اور ممکنہ طور پر دیگر یورپی ممالک نے جنگ بندی کی صورت میں یوکرین میں فوج بھیجنے کی پیشکش کی ہے – جسے ماسکو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے – تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اس اقدام کے لیے امریکہ کی حمایت یا کسی ’متبادل سکیورٹی ضمانت‘ کے خواہاں ہوں گے۔
زیلنسکی کا کہنا ہے کہ کسی بھی جنگ بندی میں مغربی ممالک کی واضح سکیورٹی ضمانتیں شامل ہونی چاہییں تاکہ روس، جو اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے، دوبارہ حملہ نہ کر سکے۔ تاہم، ٹرمپ نے ایسی کسی بھی ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔