پیرس! پی آئی اے آ رہی ہے

یہ اتنا سنگین مسئلہ نہ تھا کہ اسے پانی پت کا میدان جنگ بنا لیا جاتا۔ یہ زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر تفنن طبع کا ایک عنوان تھا لیکن یہاں اسے باقاعدہ مقامِ آہ و فغاں بنا لیا گیا؟

پی آئی اے کا 10 جنوری، 2025 ایکس پر جاری اشتہار جس میں طیارہ پیرس کے آئفل ٹاور کی جانب بڑھ رہا ہے (پی آئی اے/ ایکس)

آئفل ٹاور پر منڈلاتے پی آئی اے کے جہاز کے نیچے لکھا تھا: ’پیرس! ہم آ رہے ہیں۔‘ مجھے اسلامک فرنٹ کی انتخابی مہم یاد آ گئی: ’ظالمو! قاضی آ رہا ہے۔۔۔‘ زیرِ لب مسکراہٹیں پھوٹ پڑیں۔

یہ اشتہار واقعی اچھے ذوق کا آئینہ دار نہیں تھا۔ یوں لگا جیسے گئے وقتوں کے کسی جنگجو کی طرح پی آئی اے بھائی جان بھی خراج وصول کرنے پیرس تشریف لا رہے ہوں؟

تاہم یہ اتنا سنگین مسئلہ نہ تھا کہ اسے پانی پت کا میدان جنگ بنا لیا جاتا۔ یہ زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر تفنن طبع کا ایک عنوان تھا لیکن یہاں اسے باقاعدہ مقامِ آہ و فغاں بنا لیا گیا؟

اللہ کے بندو، ایک اشتہار میں ایک جہاز آئفل ٹاور کی طرف عازم سفر تھا، اس میں گھُس تھوڑی گیا تھا کہ ڈپٹی وزیر اعظم سے وزیر اعظم تک، سب، باجماعت، اس اہم بین الاقوامی مسئلے کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہو جاتے؟

توپ سے مچھر مارنے اور رائی کا پہاڑ بنانے میں ہماری مہارت دیکھیے۔ یہ وزیر اعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم کا میدان ہی نہیں تھا۔ بہت ہوتا تو پی آئی اے کا کوئی ترجمان یا پیرس میں ہمارے سفارت خانے کا کوئی اہلکار شگفتہ سے لہجے میں کوئی لطیف نکتہ آرائی کر کے معاملہ ختم کر دیتا۔

لیکن وطن عزیز کی رسم یہ ہے جہاں معمولی سا ’رولا‘ ہوتا ہے وہاں بذات خود ’ڈھولا‘ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ چک جھمرہ میں کوئی جرم ہو جائے تو ایس ایچ او کی کارروائی سے پہلے وزیر اعظم کارروائی ڈالتا ہے اور پورے اہتمام سے قوم کو بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ جہاں رولا، وہاں ڈھولا!

معلوم نہیں ہم اتنے خوف زدہ کیوں ہیں۔ اڑتا تیر چاہے انٹارکٹکا کے برف زار میں جا رہا ہو ہم اسے پکڑ کر بغل میں لے لیتے ہیں کہ کہیں کوئی اور نقصان نہ ہو جائے۔ ایسا نہیں کہ پی آئی اے کی اس بدذوقی کو گوارا کر لینا چاہیے مگر ایسا بھی نہیں کہ اس معاملے کو اپنے خلاف فرد جرم ہی بنا لیا جائے۔

پی آئی اے نے پیرس کے خلاف کوئی اعلان جنگ نہیں کر دیا تھا، یہ مض ایک اشتہار تھا اور اشتہار صرف ایک تخیل ہوتا ہے۔ تخیل کبھی اپنے کمال کو چھو لیتا ہے اور کبھی بدذوقی کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ ردعمل ضرور آنا چاہیے لیکن غیر ضروری ردعمل بجائے خود کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا۔

پی آئی اے کا 1979 کا ایک چار دہائی سے زیادہ پرانا اشتہار اٹھا کر طوفان کھڑا کیا جا رہا ہے جس میں نیویارک کے نائن الیون والے ٹاورز پر پی آئی اے کے جہاز کا سایہ پڑ رہا ہے۔ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اب پی آئی اے کسی نئے تخیل کے ساتھ پیرس تشریف لا رہی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوال یہ ہے کہ 1979 کے ایک اشتہار کا 2001 کے کسی حادثے سے کیا تعلق؟ کیا نائن الیون میں پی آئی اے کے جہاز استعمال ہوئے تھے؟ کیا عملہ پی آئی اے کا تھا؟

اگر ایک اشتہاری تخیل کی منفی تعبیر کرتے ہوئے پی آئی اے کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے تو ہالی وڈ کے پروڈیوسروں کی بنائی گئی بہت ساری فلموں پر کیا حکم صادر ہو گا جن کا تخیل بعد میں تباہ کن حقائق کی صورت سامنے آتا رہا؟

حال ہی میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے ماحولیات کے حوالے سے ایک اشتہار جاری کیا جس میں بیسیوں جہاز ٹوئن ٹاورز کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ اوپر لکھا تھا: ’سونامی میں نائن الیون سے 100 گنا زیادہ لوگ مارے گئے۔‘ کہا گیا یہ برا اشتہار ہے۔ بالکل برا اشتہار تھا۔ معذرت کر لی گئی۔

پی آئی اے کا جہاز تو آئفل ٹاور کی طرف جا تا دکھائی دیا ہے۔ آئفل ٹاور سے کسی جہاز کی ایسی کوئی نسبت نہیں جڑی جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں۔ جس طرح ہر ابھری ہوئی چیز کیل نہیں ہوتی کہ ٹھونک دی جائے اسی طرح ہر بلند عمارت ٹوئن ٹاور نہیں کہ اشتہار میں بھی کوئی جہاز ادھر منہ نہ کرے۔

تاہم اب چونکہ وزیر اعظم نے ازرہ کرم تحقیقات کا حکم جاری فرما ہی دیا ہے تو مناسب ہو گا کہ یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ یہ اشتہار پی آئی اے کے اپنے شعبہ اشتہارات کا حسن تخیل ہے یا اس کے لیے بھی اسی فرم کی خدمات لی گئی تھیں جس نے ماضی میں جناب شہباز شریف کی تصویر میں بھی جعل سازی کی تھی اور انہں سمارٹ دکھانے کے لیے نیو جرسی کے مائیکل ریون کے جسم پر ان کا سر لگا دیا تھا؟

یاد پڑتا ہے کہ اس جعل سازی کی تحقیقات کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو، پی آئی اے کے اشتہار کے ساتھ ساتھ ماضی کی اس تحقیق کے نتائج بھی قوم سے شیئر کر دیے جائیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر معاملہ میں غیر فقاریہ پالیسی اچھی نہیں ہوتی۔ بات بات پر اپنے سافٹ امیج کی ناگہانی وفات حسرت آیات پر رونا دھونا بھی کوئی حکمت کا کام نہیں ہے۔ ہر غلطی پر رقت بھی طاری نہیں کر لی جاتی، کچھ غلطیوں پر مسکرا کر اپنی اصلاح کر لینا کافی ہوتا ہے۔

ظالمو! پی آئی اے پچھتا رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر