انڈیا کے شہر حیدرآباد دکن کی شیروانی جو کبھی شاہی شان و شوکت اور ثقافتی شناخت کی علامت تھی، اب عام زندگی سے آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی ہے۔
یہ لباس، جسے شہر کے نوابوں، اشرافیہ اور علما نے پہنا تھا، حیدرآباد کی بھرپور تاریخ اور کثیر القومی دلکشی کی علامت رہا ہے، لیکن اب یہ لباس شادیوں اور خصوصی تقریبات سے ہٹ کر شاذ و نادر ہی کہیں نظر آتا ہے۔
شیروانی کی تاریخ تقریباً 400 سال پرانی ہے۔ اسے روزمرہ کی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور ہر وہ شخص جو اسے پہنتا تھا، خواہ وہ نواب ہو یا مزدور، وقار اور احترام محسوس کرتا تھا۔
حیدرآباد کے چھٹے نظام میر محبوب علی خان نے شیروانی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے روایتی دستکاری کو جدید طرز کے ساتھ جوڑ کر اسے خوبصورتی کی علامت کے طور پر پیش کیا۔
نوابوں کی شیروانی ریشم اور سونے سے بنی ہوتی تھی اور اس میں پیچیدہ کاریگری ہوتی تھی جبکہ عام آدمی سادہ کپڑے کی شیروانی پہنتے تھے۔ ان دونوں کے لیے یہ وقار اور عزت کی علامت تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنف و مؤرخ علامہ اعجاز فرخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’شیروانی کا تعلق ثقافت اور آداب سے ہے، مذہب سے نہیں۔ یہ لباس کسی ایک مذہب یا طبقے تک محدود نہیں تھا۔ حیدرآباد میں سماج کے ہر طبقے کے لوگ اسے پہنتے تھے۔
’جس طرح اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں تھی بلکہ ہر گھر کی زبان تھی، اسی طرح شیروانی بھی ہر برادری کی پہچان تھی، یہ لباس بازاروں سے لے کر سکولوں تک ہر جگہ دیکھا جا سکتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں طلبہ کا یونیفارم ہوا کرتا تھا، یہ صرف ایک لباس ہی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ثقافتی علامت تھی، جو ہر طبقے، ہر مذہب کے لوگوں کو جوڑتی تھی۔
’شیروانی نے حیدرآباد کے شہریوں کو سماجی اور ثقافتی بندھن میں جوڑ کر رکھا تھا۔ آج کے دور میں شیروانی اپنی پہچان اور مقبولیت کھو رہی ہے۔‘
اعجاز فرخ کا کہنا تھا: ’جس طرح اردو زبان ہماری ثقافت کی علامت ہے اسی طرح شیروانی بھی حیدرآباد کی ثقافتی شناخت ہے۔ یہ دونوں نہ صرف اسلوب ہیں بلکہ روح بھی ہیں، جنہیں زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘
گذشتہ 20 برسوں سے شیروانی کے کاروبار سے منسلک عبدالقادر کا انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’آج کل ہر کوئی جدید اور آرام دہ لباس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شیروانی ہمارے لیے فخر کی بات تھی لیکن آج کی نسل کے لیے یہ محض ایک پرانا فیشن بن کر رہ گیا ہے۔‘
عبدالقادر نے بتایا کہ ’شیروانی بنانا ایک فن ہے۔ پہلے یہ فن روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا لیکن اب یہ صرف شادیوں اور تقریبات تک محدود ہے۔ عالمگیریت اور تیز فیشن کے اثر سے شیروانی کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
‘نئی نسل اب جدید ڈیزائن، انڈو ویسٹرن ڈیزائن اور اسٹون ورک والی شیروانی کو ترجیح دیتی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ’شیروانی صرف لباس نہیں بلکہ میراث ہے۔ یہ ماضی اور حال کے درمیان ایک پل ہے جو نسلوں کو جذباتی طور پر جوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جو ہر نسل کو ثقافتی ورثے سے جوڑتا ہے۔ لیکن اگر اسے نہ سنبھالا گیا تو یہ صرف یادوں کا ‘حصہ رہ جائے گا۔
عبدالقادر کے مطابق شیروانی کی کاریگری کا اپنا ایک مقام ہے۔ سٹون ورک یا زری کی شیروانی کو بنانے میں کئی دن لگتے ہیں اور اس میں نازک کڑھائی کا کام شامل ہے۔ ونٹیج شیروانی میں ہاتھ کی سلائی، بٹن کے منفرد ڈیزائن اور روایتی رنگوں کا خصوصی استعمال ہوتا تھا۔ شیروانی بنانے والے کاریگر اپنے فن کی وجہ سے مشہور تھے اور ہر شیروانی کی اپنی ایک کہانی تھی۔
شیروانی کے کاروبار سے منسلک عمیر احمد جن کی عمر 25 سال ہے، کا کہنا ہے کہ شیروانی بہت خوبصورت لگتی ہے، لیکن اب یہ پریکٹیکل نہیں ہے۔ آج کے دور میں لوگ جدید اور آرام دہ لباس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب شیروانی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھی لیکن گلوبلائزیشن اور تیز فیشن کی وجہ سے اب یہ صرف خاص مواقع تک محدود ہے۔ نئے رجحانات اور مغربی کپڑوں کی مانگ نے اس روایت کو دھندلا دیا ہے۔