’بدمعاش حکومت‘: خامنہ ای نے ٹرمپ کی مذاکرات کی پیش کش مسترد کر دی

خامنہ ای نے کہا کہ امریکی مطالبات نہ صرف عسکری نوعیت کے ہوں گے بلکہ اس کا ایران کے خطے میں اثر و رسوخ پر فرق پڑے گا۔

سات مارچ 2025 کے تصویری مجموعے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای (دائیں) جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (بائیں) (اے ایف پی)

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ وہ امریکہ سے مذاکرات کے دباؤ کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ اس کا مقصد ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ ہفتے کو حکام سے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک ’بدمعاش حکومت‘ ان پر مذاکرات کے لیے زور دے رہی ہے لیکن ان کے مذاکرات کا مقصد مسائل کا حل نہیں بلکہ اپنی مرضی دوسرے فریق پر مسلط کرنا ہے۔

خامنہ ای کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں تہران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس معاہدے کی جگہ نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔

خامنہ ای نے کہا کہ امریکی مطالبات نہ صرف عسکری نوعیت کے ہوں گے بلکہ اس کا ایران کے خطے میں اثر و رسوخ پر فرق پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہ دفاعی صلاحیتوں، بین الاقوامی معاملات میں ایرانی اہلیت کے بارے میں ہوں گے۔ (وہ ایران پر زور دیں گے) کہ کچھ نہ کرے، کچھ مخصوص لوگوں سے نہ ملے، کسی خاص مقام پر نہ جائے، کچھ مخصوص اشیا تیار نہ کرے، میزائل رینج ایک مخصوص حد سے زیادہ نہ ہو۔ کیا کوئی (خود مختیار ملک) یہ سب تسلیم کر سکتا ہے؟‘

خامنہ ای نے کہا کہ اس قسم کے مذاکرات ایران اور مغرب کے درمیان مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ خامنہ ای نے کسی ملک یا فرد کا نام نہیں لیا لیکن انہوں نے کہا کہ مذاکرات پر دباؤ ایرانی عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے ڈالا جا رہا ہے۔

’یہ مذاکرات نہیں بلکہ حکم صادر کرنا اور زبردستی اپنی بات منوانا ہے۔‘

ٹرمپ نے جمعے کو اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نے ایک ممکنہ فوجی کارروائی کا عندیہ دیا: ’ہمیں ایران سے متعلق ایک صورت حال کا سامنا ہے، اور کچھ بہت جلد ہونے والا ہے۔ بہت، بہت جلد۔‘

ان کا یہ عندیہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل اور امریکہ دونوں خبردار کر چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے جس سے خطے میں عسکری تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں کیونکہ تہران یورینیم کو تقریباً جوہری ہتھیاروں کے معیار تک افزودہ کر رہا ہے۔

تہران طویل عرصے سے دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے تاہم اس کے حکام اب امریکہ کی پابندیوں اور اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں جوہری ہتھیار بنانے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

ایران کی جانب سے تقریباً جوہری ہتھیاروں کے معیار کی سطح تک یورینیم کی افزودگی میں تیزی سے اضافہ ٹرمپ پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے۔

ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ واشنگٹن دوسری جانب تہران کی تیل کی فروخت کو نشانہ بناتے ہوئے سخت پابندیوں کا نفاذ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس سے قبل گذشتہ سال اگست میں ایک تقریر کے دوران خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے دروازے کھولتے ہوئے کہا تھا کہ ’دشمن کے ساتھ بات چیت میں کوئی حرج نہیں۔‘

تاہم حالیہ بیانات میں انہوں نے اس مؤقف میں سختی لاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ’نہ تو عقل مندی ہیں، نہ دانشمندی اور نہ ہی باعزت۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا