1905 کے موسم گرما میں ایک نوجوان کینیڈین بیوہ، مینہ ہبرڈ نے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد لابریڈور کے شمال مشرقی علاقے کا نقشہ تیار کرنا تھا، جھیل میل ول سے لے کر انگاوا بے تک، جو بحر منجمد شمالی کا ایک حصہ ہے۔
یہ ایک غیر معمولی چیلنج تھا۔ خاص طور پر ایک سابق نرس کے لیے جنہوں نے 16 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا۔
ان کے شوہر لیونایڈس ہبرڈ اسی سخت ماحول میں دو سال قبل جان گنوا چکے تھے۔ 35 سالہ مینہ نے عزم کر رکھا تھا کہ وہ ان کا نامکمل کام مکمل کریں گی۔
اگرچہ 600 میل کے اس سفر میں بھوک، ریچھ، دریاؤں کا یخ بستہ پانی اور خطرناک تیز دھارے جیسے خطرات موجود تھے، لیکن مینہ ہبرڈ کے سب سے بڑے مخالف وہ صحافی اور مدیر تھے جو20 ویں صدی کے اوائل میں شمالی امریکہ کی مردوں کے زیر اثر مہم جوئی کی صحافت سے تعلق رکھتے تھے۔
آؤٹنگ نامی میگزین جس کے لیے لیونائڈس ہبرڈ لکھا کرتے تھے، سب سے زیادہ سخت رویہ اپنانے والا ثابت ہوا۔ اس کے ایڈیٹر، کیسپر وٹنی نے ایک اداریے میں غصے سے لکھا کہ ’بیوہ‘ کو جنگلوں میں نہیں جانا چاہیے اور نہ ہی انہیں اس بارے میں بات کرنے کا کوئی حق حاصل ہے۔
ویران علاقے سفید فام خواتین کے لیے موزوں نہیں تھے۔ خاص طور پر جب وہ فرسٹ نیشن (مقامی امریکی) گائیڈز کے ساتھ سفر کر رہی ہوں۔
یہ تنقید اس وقت کی گئی جب مینہ نے ایک اور اخبار کو حال ہی میں انٹرویو دیا۔
دیگر اخبارات نے مینہ ہبرڈ کو غم سے نڈھال اور جذباتی طور پر غیر مستحکم قرار دیا۔ ان کے نزدیک اس قدر طویل اور مشقت بھرا سفر اختیار کرنے کی یہی واحد ممکنہ وضاحت تھی۔
جب مینہ اپنی مہم میں 300 میل آگے بڑھ چکی تھیں اوردریائے نسکوپی کا منبع کو دریافت کر چکی تھیں، تو نیویارک ٹائمز نے اپنے صفحۂ اول پر خبر شائع کی کہ انہوں نے ہار مان لی ہے اور مشکلات اور تکالیف سے مجبور ہو کر واپسی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
اخبار نے دعویٰ کیا کہ ڈلن والیس نامی ایک مہم جو، جو اسی دوران شمالی لابریڈور میں تھے ’کسی سفید فام انسان کی طرف سے سر کیے گئے اب تک کے سب سے دور دراز مقام سے بھی آگے بڑھ رہے تھے۔‘
حقیقت میں مینہ ہبرڈ نے نہ تو ہار مانی تھی اور نہ ہی والیس ان تک پہنچ پائے تھے۔ بلکہ وہ کئی ہفتے قبل ہی انگاوا بے تک پہنچ چکی تھیں، والیس اور ان کی ٹیم سے کہیں آگے۔
لیکن اس دور کے غالب بیانیے کے مطابق ویران مقامات اور مہم جوئی کا میدان خواتین کے لیے نہیں تھا۔ اور اسی پرانے نظریے کو مزید تقویت دینے کے لیے یہ خبر گھڑی گئی تھی۔
میں اپنی نئی کتاب ’وائلڈلی ڈیفرنٹ: ہاؤ فائیو ویمن ریکلیمڈ نیچر اِن اے مینز ورلڈ‘ میں اس تصور کو کھنگالتی ہوں کہ جنگل اور ویران علاقے درحقیقت کیا ہیں اور انہیں کسی صنف کو سامنے رکھ کر کیسے دیکھا گیا۔
قدیم دیومالائی داستاموں جیسے کہ یولیسز اور گلگامش، سے لے کر آج کے دور تک، جہاں تحقیق سے ثابت ہوا کہ خواتین کو دور دراز انٹارکٹک بیسز پر بھی ہراسانی اور سماجی علیحدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویران اور غیر آباد مقامات صدیوں سے مردوں کی بہادری، مشکل مہم جوئی اور دریافتوں کے مرکز رہے ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ شکار کرنے والے نئے دور کے معاشروں میں بھی، جہاں خواتین جنگل کے کنارے چھوٹے قطعے سنبھالتی ہیں اور گاؤں یا کیمپ کے قریب معمولی شکار کرتی ہیں، وہیں مرد بڑے شکار اور سماجی حیثیت کے حصول کے لیے اکثر کئی دنوں تک دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں۔
دنیا بھر کی دیومالائی داستانیں سننے اور پڑھنے والوں کو یہ پیغام دیتی رہی ہیں کہ جو خواتین شہر کی فصیل، گاؤں کی باڑ یا کیمپ کی حدود سے باہر نکلتی ہیں، وہ یا تو مافوق الفطرت ہوتی ہیں، یا کسی عفریت میں تبدیل ہو چکی ہوتی ہیں، یا پھر انہیں سماج کے خلاف گناہوں کے ارتکاب پر جلا وطن کر دیا گیا ہوتا ہے۔
یونانی دیومالا پولی فونٹی کی کہانی میں ایک نوجوان لڑکی جو روایتی صنفی کردار کو اپنانے سے انکار کر دیتی ہے یعنی بیوی اور ماں بننے کی بجائے جنگل میں شکار کرنا چاہتی ہے، تو اسے دیوتاؤں کی طرف سے بھیانک سزا دی جاتی ہے۔
اسے ایک چال میں پھنسا کر ریچھ سے انسان بنے ہوئی مخلوق سے محبت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ دو درندہ صفت بچوں کو جنم دیتی ہے۔
آخر میں، پولی فونٹی اور اس کے بیٹوں کو گوشت کھانے والے پرندوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنے رہیں۔
مینہ ہبرڈ کے سفر پر ہونے والی میڈیا تنقید کی ایک جدید مثال 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں کینیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جب ماحولیاتی کارکن وانگری ماتھائی کو حملوں اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔
حتیٰ کہ انہیں منحوس تک قرار دیا گیا۔ صرف اس لیے کہ انہوں نے درخت لگائے ان جنگلات میں، جنہیں اس وقت کے صدر ڈینیئل اراپ موئی نے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔
مزید برآں وانگری ماتھائی نے نیروبی کے آخری چند سبزہ زاروں میں سے ایک میں موئی کے فلک بوس عمارت بنانے کے منصوبے کو چیلنج کیا جس کے باعث انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب وانگری ماتھائی کی صدر ڈینیئل اراپ موئی سے کشمکش عروج پر تھی تو اخبار ڈیلی نیشن نے بھی ماتھائی اور ان کی تنظیم گرین بیلٹ موومنٹ کے خلاف تنقید کو دہرانا شروع کر دیا۔
اخبار میں شہ سرخیاں شائع ہوئیں .’اراکان پارلیمنٹ کی طرف سے پروفیسر ماتھائی کی مذمت‘ اور ’اراکان پارلیمنٹ ماتھائی کی تحریک پر پابندی چاہتے ہیں۔‘
ان کا جرم کیا تھا؟
صحرا میں تباہ کن اضافے اور مٹی کے کٹاؤ کو روکنے کی خواہش، اور دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے تین کروڑ درخت لگانے کا منصوبہ۔
جب برطانوی کوہ پیما ایلیسن ہارگریوز 1995 میں ہمالیہ میں جان کی بازی ہار گئیں، تو میڈیا کی رپورٹنگ کا زیادہ تر مرکزی نکتہ یہ تھا کہ وہ ایک ماں اور بیوی تھیں۔
میری تحقیق کے دوران ملنے والے تاریخی اخباری ریکارڈز میں بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے بنیادی کردار یعنی بچوں کی دیکھ بھال کو ترک کر دیا تھا۔
سنڈے ٹائمز نے انہیں ’جنون میں مبتلا ماں‘ قرار دیا جب کہ دی انڈپنڈنٹ نے شہ سرخی لگائی کہ ’چوٹیوں پر چڑھنے والی خاتون کی خطرناک بلند پروازی۔‘
ڈیلی ٹیلی گراف کی شہ سرخی تھی ’ ایک بیوی جو بلند چیلنجز کی طرف دھکیلی گئی۔‘
اخباروں کے قارئین کے خطوط اس سے بھی زیادہ سخت تھے جن میں انہیں خودغرض اور غیر ذمہ دار قرار دیا گیا۔
انوکھی ریتی
جن خواتین کو مثبت یا غیر جانبدار کوریج ملی، ان کی کامیابی اکثر انوکھے پن کی وجہ سے دیکھی گئی، یا پھر انہوں نے اتنا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا کہ ان کا خاتون ہونا بھی کہانی کا لازمی حصہ بن گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہر حشرات ایولین چیزمین نے گالاپاگوس سے لے کر نیو گنی تک بحرالکاہل کے جزیروں میں عشروں تک کیڑوں کو جمع کرنے کا کام کیا۔
ان کی تحقیق نے نیو ہیبریڈیز میں مختلف ماحولیاتی نظاموں کے درمیان حیاتیاتی حد بندی کے نظریے کو تقویت دی جسے بعد میں ’چیزمین لائن‘ کا نام دیا گیا۔
اخباری میڈیا کے لیے ان کی سائنسی خدمات کو ایک انوکھا کارنامہ سمجھا گیا اور اسی وجہ سے انہیں نمایاں کوریج ملی۔
1930 کی دہائی کے اوائل میں ایولین چیزمین کے مہینوں طویل، سخت ترین سفر نے انہیں پاپوا نیو گنی میں حیرت انگیز کامیابی دلائی۔
اس مہم کی بدولت، اب بند ہو چکے یو کے نیوز کرونیکل اخبار نے شہ سرخی لگائی ’خاتون نے 42,000 کیڑے جمع کر لیے۔‘
جب ایولین چیزمین نے 1957 میں اپنی یادداشتیں شائع کیں، جن میں چار دہائیوں پر محیط مہمات کی تفصیل بیان کی گئی، تو رینالڈز نیوز اخبار نے یہ سنسنی خیز شہ سرخی لگائی کہ خاتون دیو ہیکل مکڑی کے جال میں پھنس گئی۔ جب کہ ذیلی سرخی نہایت سادہ تھی۔
’انہیں ان کی ناخن ہموار کرنے والی ریتی نے بچا لیا۔‘
زیادہ وسیع تناظر میں، میری تحقیق اس مایوس کن نتیجے پر پہنچتی ہے کہ 100 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود خواتین مہم جو اور سائنسی تحقیقاتی میدان میں کام کرنے والی خواتین کو اب بھی ویران علاقوں میں خلاف معمول یا اجنبی سمجھا جاتا ہے۔
یہ میڈیا بیانیے نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ وہ سماجی رویوں کو مزید تقویت دیتے ہیں، جو خواتین کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
اس کا اثر ان کی نقل و حرکت پر بھی پڑتا ہے کیوں کہ بہت سی خواتین تنہا علاقوں میں جانے سے گریز کرتی ہیں، خاص طور پر رات کے وقت یا دن کی روشنی ختم ہونے کے بعد، تاکہ کسی ناخوشگوار صورت حال سے بچ سکیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ امریکہ میں ہائیکنگ کرنے والی خواتین، سیاہ فام اور ہسپانوی نژاد ہائیکرز کو ریچھ یا دیگر جنگلی جانوروں سے زیادہ مرد حضرات کے حملے کا خوف ہوتا ہے۔
خواتین کے آؤٹ ڈور گروپس اور مہم چلانے والی تنظیمیں، مثال کے طور پر وومن ود آلٹی ٹیوڈ اور ٹف گرل پوڈکاسٹ، اس منفی بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
یہ پلیٹ فارمز خواتین کو حوصلہ دیتے ہیں کہ وہ دنیا کے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں قدرتی خوبصورتی اور نئی دریافتوں سے لطف اندوز ہوں، بغیر کسی خوف یا سماجی دباؤ کے۔
نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل دا کنورسیشن میں چھپ چکا ہے۔