بی بی سی اور مغربی میڈیا نے اسرائیلی جنگی جرائم، فلسطینیوں پر مظالم نظرانداز کیے؟

اسرائیلی جارحیت کے دوران فلسطین کے حوالے سے کوریج پر دوہرے معیار کی داستان میں بی بی سی، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے علاوہ دیگر مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس بھی شامل ہیں۔

کیا برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) اور مغربی میڈیا اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز کر کے ان سے نا انصافی کا مرتکب ہوا ہے؟

اس بات کو جانچنے کے لیے ہمیں بی بی سی میں طویل عرصے تک مشرق وسطیٰ کی ماہر کے طور پر کام کرنے والی صحافی کرشمہ پٹیل کا حال ہی میں لکھا گیا کالم پڑھنا پڑے گا۔

دی انڈپینڈنٹ میں لکھے گئے کالم میں کرشمہ نے انکشاف کیا کہ ’غزہ: ہاؤ ٹو سروائیو اے وار زون‘ (Gaza: How to Survive a Warzone) نامی دستاویزی فلم بی بی سی نے صرف اس وجہ سے ہٹا دی کیونکہ اس میں وہ 13 سالہ بچہ شامل تھا، جو حماس کے زیرانتظام علاقے کے نائب وزیر زراعت کا رشتہ دار تھا۔

 اور بی بی سی یہ نہیں دکھانا چاہتا تھا کہ اسرائیل فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہا ہے۔

بی بی سی کی سابق صحافی کرشمہ پٹیل نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے ادارے نے پانچ سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی کوریج سے بھی انکار کر دیا تھا اور اس کا نام لینے کا فیصلہ تب ہی کیا جب اسرائیلی فوج نے ہند رجب کو بے دردی سے قتل کر دیا۔

یہ وہی ہند رجب تھی جو 29 جنوری 2024 کو اس وقت غزہ میں اسرائیل کی گولہ باری کا شکار بنی، جب وہ اپنے قریبی رشتے داروں کی لاشوں کے درمیان ایک کار میں پھنسی ہوئی تھی۔

اور جب بی بی سی نے بچی کی موت کی خبر شائع کی تو سرخی میں اسرائیل کا نام تک شامل نہیں کیا۔

فلسطین کی کوریج پر دوہرے معیار کی داستان میں بی بی سی ہی نہیں بلکے دیگر مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس بھی شامل ہیں۔

نیو یارک ٹائمز دنیا کے بڑےاخباروں میں سے ایک ہے۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی غزہ جنگ سے پہلے نیو یارک ٹائمز حماس کے لیے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہا تھا۔

فلپ کوربیٹ نیویارک ٹائمز کے سٹینڈرز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، جن کا کام ہی مختلف الفاظ، اصطلاحوں اور صحافتی معیار کو یقینی بنانا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ دن بعد انہیں اپنی ذمہ داریاں چھوڑنا پڑیں کیونکہ وہ حماس کے ساتھ دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرنے کو ادارتی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے اور اس کے بعد سے نیویارک ٹائمز نے اپنی کوریج میں حماس کو دہشت گرد تنظیم کہہ کر ہی پکارا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیویارک ٹائمز ہی کا ایک اور واقعہ جس میں انہوں نے اسرائیلی مظالم کو چھپانے کے علاوہ حماس پر جنسی تشدد کے الزامات کے حوالے سے  بھی ایک مضمون شائع کیا۔ اس مضمون کے مواد پر شکوک و شبہات کے بعد نیویارک ٹائمز کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اخبار نے اس مضمون کی رپورٹنگ ٹیم میں اسرائیلی فلم ساز اور فضائیہ کی سابق انٹیلی جنس افسر کو شامل کیا، جس کا رپورٹنگ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

یہ وہی ایجنٹ تھیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ’غزہ کی پٹی کو مذبح خانے میں تبدیل کرنے‘ کی ضروت ہے، جیسی پوسٹس لائک کی تھیں۔ نیویارک ٹائمز نے یہ تو کہہ دیا کہ وہ اس پوسٹ کے لائک کیے جانے کی تحقیقات کر رہے ہیں مگر آج تک اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیسے ایک سابق انٹیلی جنس افسر کو صحافتی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور نہ ہی مضمون میں بے ضابطگیوں پر کوئی معافی مانگی۔

نیو یارک ٹائمز کے علاوہ اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

چھ ستمبر 2024 کو اسرائیلی فوج نے ترک نژاد امریکی انسانی حقوق کی کارکن عائشے نور کو مغربی کنارے میں سر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ امریکی نیٹ ورک اے بی سی نے اس کی ہیڈلائن دی کہ ’مغربی کنارے میں امریکی کارکن کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا: حکام‘

لیکن کس نے مارا؟ صرف سرخی ہی نہیں بلکہ خبر میں بھی اسرائیلی فوج کا ذکر 18ویں سطر میں جا کر کیا گیا۔

جبکہ واشنگٹن پوسٹ کی ہیڈلائن میں بھی اسرائیل کا نام غائب تھا۔

جب اسرائیل نے غزہ میں پانی کی فراہمی بند کر دی تو گارڈین اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ اسرائیل عام شہریوں کے خلاف سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس کی سرخی تھی کہ ’غزہ میں پانی ختم ہونے سے لوگوں کی اموات کا خدشہ‘

’دی انٹرسیپٹ‘ نے بھی اپنی رپورٹس میں مغربی میڈیا کو بے نقاب کیا کہ کیسے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز جیسے ادارے یکطرفہ کہانی بیان کر رہے ہیں۔

سات اکتوبر سے 25 نومبر 2023 کے درمیان جیسے جیسے فلسطینیوں کی اموات میں اضافہ ہوتا گیا، ویسے ویسے اس کی رپورٹنگ کے تناسب میں کمی آتی گئی۔

ایک اور چارٹ کے ذریعے یہ بھی دکھایا گیا کہ ’قتل عام، ہولناک‘ جیسے الفاظ جہاں اسرائیلی اموات کے لیے بے دریغ استعمال کیے گئے، وہیں فلسطینیوں کی اموات پر ان الفاظ کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔

دی انٹرسیپٹ کے ذریعے حاصل کردہ نیویارک ٹائمز  کے ایک اندرونی میمو کی ایک کاپی کے مطابق نیویارک ٹائمز نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو جہاں ’نسل کشی‘  اور ’نسلی صفائی‘ کی اصطلاحات کے استعمال کرنے سے روکا، وہیں لفظ ’فلسطین‘ کا استعمال بھی کم سے کم کرنے کی ہدایات دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا