ایرانی وزیر خارجہ نے عندیہ دیا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن ایسا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی حکمت عملی کے تحت نہیں ہو گا۔
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ہفتے کو ٹیلی گرام پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا: ’پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات ضروری ہیں لیکن ایسا 'زیادہ سے زیادہ دباؤ' کی پالیسی کے فریم ورک کے اندر نہیں ہو گا کیونکہ یہ مذاکرات نہیں بلکہ ہتھیار ڈالنے کی ایک شکل ہو گی۔‘
عباس عراقچی نے مزید کہا کہ ’ایران ایسے ملک کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا جو بیک وقت نئی پابندیاں بھی عائد کر رہا ہو۔‘
وزیر خارجہ کا یہ بیان ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اس اعلان کے بعد آیا جس میں انہوں نے واشنگٹن سے مذاکرات کو ’غیر دانشمندانہ‘ قرار دیتے ہوئے حکومت پر امریکہ سے بات نہ کرنے پر زور دیا تھا۔
خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ ایران کے گذشتہ مذاکرات کے تجربے کا حوالہ دے کر اپنے مؤقف کو درست قرار دیا۔
2015 میں ایران نے امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس کے جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا اور اس کے بدلے بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کی گئی۔
تاہم 2018 میں اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا اور یورپی ممالک اس مخالفت کے باوجود تہران پر سخت پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔
ٹرمپ نے بدھ کو ایران کے ساتھ ایک ’تصدیق شدہ جوہری امن معاہدے‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
تاہم امریکی صدر نے منگل کو دوبارہ اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت واشنگٹن نے جمعرات کو ان کمپنیوں اور افراد پر مالی پابندیاں عائد کر دیں جن پر کروڑوں ڈالر کا ایرانی خام تیل چین کو فروخت کرنے کا الزام تھا۔
اقتصادی مشکلات اور امریکی پابندیاں
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مغربی پابندیوں، خاص طور پر جوہری معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کے بعد، کروڑوں ایرانی شہریوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، جو شدید مہنگائی اور گرتی ہوئی کرنسی کے باعث گزر بسر کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
خامنہ ای نے جمعے کے روز اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’تقریباً تمام طبقات کو کچھ مسائل درپیش ہیں لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ان مسائل کا داخلی حل ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت عوام کے معاشی مسائل کو کم کر سکتی ہے۔
تہران نے امید ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول ایران کے حوالے سے ’حقیقت پسندانہ‘ رویہ اپنائیں گے۔
تاہم جمعرات کو ایران نے عرب ممالک اور عالمی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اس ٹرمپ منصوبے کی مذمت کی جس کے تحت فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے نکالنے کی بات کی گئی تھی۔
اس شدید ردعمل کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پیچھے ہٹتی دکھائی دی اور امریکی وزیر خارجہ نے وضاحت دی کہ غزہ کے عوام کی ممکنہ نقل مکانی محض ’عارضی‘ ہوگی۔
خامنہ ای نے اس بارے میں کہا کہ ’امریکی انتظامیہ ’دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے‘ کی کوشش کر رہی ہے۔ یقیناً یہ صرف کاغذ پر ہے اس کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں۔‘