مچھلی کھانے والے بچے زیادہ رحم دل ہو سکتے ہیں: تحقیق

تحقیق کے مطابق وہ بچے جو بالکل مچھلی نہیں کھاتے تھے ان میں ’غیر سماجی رویے‘ کے امکانات زیادہ تھے۔

یکم اکتوبر 2013 کو نیو یارک سٹی میں ایک تقریب میں بچے کھانا کھا رہے ہیں (اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جو بچے باقاعدگی سے مچھلی کھاتے ہیں، وہ اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں زیادہ سماجی اور رحم دل ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھلی کھانے کا بچوں کی ذہنی نشوونما پر مثبت اثر پڑنے کا امکان ہوتا ہے۔

برسٹل یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ سمندری خوراک اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، سیلینیم اور آیوڈین سے بھرپور ہوتی ہے، جو دماغی نشوونما اور ذہنی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ آیا سات سال کی عمر میں بچوں کی مچھلی کھانے کی عادت کا ان کی ذہنی اور عمومی رویے سے متعلق نشوونما پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔

اس تحقیق کے دوران انگلینڈ میں تقریباً چھ ہزار بچوں کے طویل مدتی ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔

ہر ہفتے کھائی جانے والی مچھلی کی اوسط مقدار 123 گرام تھی۔

مطالعے میں شریک 7.2  فیصد بچوں نے ہر ہفتے کوئی مچھلی نہیں کھائی، 63.9 فیصد بچوں نے ایک سے 190 گرام کے درمیان مچھلی کھائی جبکہ 28.9 فیصد بچوں نے ہر ہفتے 190 گرام سے زیادہ مچھلی کھائی، جو اس خوراک کے دو حصوں سے زیادہ کے برابر ہے۔

تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کھائی جانے والی مچھلی کا تقریباً 46 فیصد حصہ ’وائٹ کوٹڈ فش پروڈکٹس‘ یعنی فش فنگرز یا اسی طرح کی دیگر مصنوعات پر مشتمل تھا۔

تحقیق کے مطابق وہ بچے جو بالکل مچھلی نہیں کھاتے تھے، ان میں ’غیر سماجی رویے‘ کے امکانات زیادہ تھے۔ ان سماجی رویوں میں دوستی، ایثار اور دوسروں کے ساتھ چیزیں بانٹنا شامل ہے۔

تحقیق میں پایا گیا کہ جو بچے سات سال کی عمر میں مچھلی نہیں کھاتے تھے، ان میں ایسے بچوں کے مقابلے میں، جو ہر ہفتے کم از کم 190 گرام مچھلی کھاتے تھے، 35 فیصد زیادہ ’غیر سماجی رویہ‘ پایا گیا۔ یہ فرق نو سال کی عمر میں بڑھ کر 43 فیصد تک پہنچ گیا۔

محققین نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ آیا مچھلی کھانے اور بچوں کی ذہانت کے درمیان کوئی واضح فرق ہے یا نہیں، تاہم آٹھ سال کی عمر کے بچوں میں مچھلی کھانے یا نہ کھانے کے باوجود ذہانت میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔

برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق ایک صحت مند اور متوازن خوراک میں کم از کم ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی شامل ہونی چاہیے، جن میں سے ایک حصہ سالمن، میکریل یا سارڈین جیسی فیٹی فِش (زیادہ چربی والی مچھلی) ہونی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

این ایچ ایس والدین کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ بچوں کو کم از کم ہفتے میں ایک بار زیادہ چربی والی مچھلی ضرور کھلائیں لیکن چونکہ ان میں آلودگی کی معمولی مقدار موجود ہوسکتی ہے، جو جسم میں جمع ہو سکتی ہے، اس لیے لڑکوں کو ہفتے میں چار سے زیادہ بار اور لڑکیوں کو دو سے زیادہ مرتبہ مچھلی نہیں دینی چاہیے۔

برسٹل یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے غذائیت، ڈاکٹر کیرولین ٹیلر کا کہنا ہے: ’جب مختلف اور متضاد مشورے موجود ہوں تو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ بہترین فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہماری گذشتہ تحقیقات میں یہ ثابت ہوا ہے کہ برطانیہ میں حمل کے دوران مچھلی کھانا بچوں کی نشوونما پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ نتائج ان ممالک میں بھی دیکھے گئے ہیں جہاں مچھلی کا استعمال برطانیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے، لہٰذا مچھلی کھانے کی حوصلہ افزائی بچوں کی نشوونما پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔‘

ان کے بقول: ’ہماری تحقیق واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہے کہ مچھلی کھانے سے بچوں میں رویے کی بہترین نشوونما ممکن ہے اور ہم والدین کو پُرزور مشورہ دیتے ہیں کہ وہ این ایچ ایس کی ہدایات کے مطابق اپنے بچوں کو ہر ہفتے کم از کم دو مرتبہ مچھلی ضرور کھلائیں۔

’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تحقیق والدین کو یہ اہم معلومات فراہم کرے گی تاکہ وہ اپنے بچوں کو زندگی کی بہترین شروعات دے سکیں۔‘

محققین نے اس مطالعے کے لیے ’چلڈرن آف دی نائنٹیز‘ نامی مطالعے سے حاصل شدہ ڈیٹا استعمال کیا، جو بچوں کی بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے خاندانوں کا طویل مدتی تجزیہ کرنے والا ایک تحقیقی منصوبہ ہے۔

اس تحقیق کو حال ہی میں مزید 52 لاکھ پاؤنڈز کی فنڈنگ ملی ہے تاکہ جنوب مغربی انگلینڈ میں خاندانوں پر تحقیق جاری رکھی جا سکے۔ یہ مطالعہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوا تھا اور اب تک ہزاروں تحقیقی مقالوں میں معاونت کر چکا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت