انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی نتائج یا ریفرنڈم

عوام نے ووٹ کے ذریعے باور کرایا کہ جموں و کشمیر میں صرف وہی پارٹی جیت سکتی ہے جو اُن کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہو اور اُن کو جاگیر سمجھ کر اُن پر دھونس دباو نہیں جما سکتی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعت جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ 8 اکتوبر 2024 کو سری نگر میں اپنے گھر سے باہر آکر عوام سے خطاب کرنے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سخت گیر پالیسی کی مخالفت میں نہ مذہب کا استعمال کیا نہ جلسے جلوس منعقد کیے اور نہ اسے بندوق کے بل بوتے پرحل کرنے کی کوشش کی۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

اس بار لوگوں نے جمہوری طریقہ اختیار کرکے نہ صرف بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی کو شکست دی بلکہ ایک ریفرنڈم سمجھ کر پانچ اگست 2019 کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف ایک زبان میں اُس پرانی پارٹی کو جتوایا جس کو بی جے پی نے سیاسی جماعتوں کی فہرست سے نابود کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

عوام نے ووٹ کے ذریعے باور کرایا کہ جموں و کشمیر میں صرف وہی پارٹی جیت سکتی ہے جو اُن کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہو اور اُن کو جاگیر سمجھ کر اُن پر دھونس دباو نہیں جما سکتی۔

میڈیا ہو، تجزیہ نگار ہوں یا تھنک ٹیکنس، سب ہی نے اس بات پر یک زبان ہوکر کشمیری ووٹروں کی تعریف کی کہ اُنہوں  نے حالیہ انتخابات میں بے حد سنجیدگی، سوجھ بوجھ اور بردباری کا مظاہرہ کیا جب اُنہوں نے بی جے پی کو ہرا کر نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کو حکومت سازی کے لیے کامیابی سے ہمکنار کردیا۔

اگرچہ اتحاد میں شامل دو جماعتوں کے انتخابی منشور میں آرٹیکل 370 کے بارے میں مختلف آرا ہیں پھر بھی خطے کی آئینی مراعات اور اس کے حقوق چھیننے پر ووٹ دے کر بی جے پی کو سزا سنائی۔

اتنا ہی نہیں بلکہ ووٹروں نے ایسی جماعتوں اور اُمیدواروں کو بھی سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ بی جے پی کی اے ٹیم یا بی ٹیم ہیں۔

محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی، الطاف بخاری کی اپنی پارٹی، انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس کے لیے یہ انتخابات خفت کا باعث بنے حالاں کہ انتخابی مہم کے آخری مراحل میں انہوں نے آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کا نعرہ بھی لگا دیا تھا۔

جس انجینیئر رشید کو چند ماہ پہلے جیل سے رہائی دلانے کے لیے پارلیمانی انتخابات میں شاندار کامیابی دلائی اُن کو اسمبلی انتخابات میں شکست سے دوچار کیا کیوں کہ اُن کی اچانک رہائی اور پھر جذباتی بیانات مشکوک تصور کیے جانے لگے اور اُن کے اسمبلی انتخابات میں نمودار ہونے کو بی جے پی کی کارستانی سے تعبیر کیا جانے لگا تھا۔

جماعت اسلامی کے بعض رہنما، افضل گورو (جنہیں پارلیمان پر حملے میں مبینہ طور ملوث قرار دے کر پھانسی دی گئی اور تہاڑ جیل میں دفن کردیا گیا) کے بھائی اعجاز احمد گورو اور حریت کے بعض اُمیدواروں کو ووٹروں نے یکسر مسترد کر دیا۔

ان کے بارے میں یہ زبان زدعام تھا کہ ان سب کو دباؤ اور حالت مجبوری میں انتخابات لڑنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد دنیا کو باور کرانا تھا کہ آزادی پسند فورسز ’مین سٹریم‘ میں داخل ہوکر اپنی تحریک کو خود دفن کر چکے ہیں۔

امریکہ اور یورپی یونین کے وفود کی انتخابی مرکزوں کا دورہ کرانے سے اس کی تصدیق کرائی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک روزنامے کے ایڈیٹر کہتے ہیں کہ ’عوام کے بڑے طبقےنے انہیں مسترد کر کے یہ جتانے کی کوشش کی کہ مجبوری ہی کیوں نہ ہو مگر نظریات بدل کر یہ اُس موقف سے غداری تھی جس پر ایک لاکھ سے زائد نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ بعض ووٹروں نے ان سے معافی مانگنے کی تلقین کی مگر جواب میں انہوں نے بدلتے حالات کا حوالہ دیا اور عوام سے ووٹ مانگتے رہے۔‘

ان انتخابات نے انڈیا اور دوسری ریاستوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ جہاں پارلیمان میں 15 فیصد مسلمانوں کی اس وقت صرف چار فیصد سے کم نمائندگی حاصل ہے وہاں جموں و کشمیر نے سیکولر کریکٹر کا ثبوت دیا جب اروند کیجریوال کی آپ پارٹی، راہول گاندھی کی کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور بی جے پی کے اُمیدواروں کو جیت سے ہمکنار کردیا۔

جموں کے بیشتر لوگوں نے ایک بیانیہ چلانے کی کوشش کی کہ اس بار جموں وکشمیر کا ہندو وزیراعلی اور بی جے پی کی حکومت لازمی ہے کیوں کہ ماضی میں کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے جموں کو نظر انداز کیا ہے۔

حالاں کہ جموں کے لوگوں نے سلطنت کشمیر پر ہندو مہاراجوں کی تقریبا 100 سال تک حکومت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو نظر انداز کرنے پر کبھی منہ نہیں کھولا۔

بہرحال ہندوتوا عناصر نے جموں اور کشمیر کے بیچ میں خلیج پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، عوام نے بغیر مذہب و ملت کے ہندوتوا کو سرے سے دھُتکار دیا۔

نتائج نکلے، نیشنل کانفرنس جیتی، عوام نے جشن منایا مگر اب جن چیلنجز کا سامنا ہے اُن کا سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ ہی سامنا کیا جاسکتا ہے۔

مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے، ریاستی درجہ حاصل کرنے، مقامی باشندوں کے لیے حق اراضی یا حق روزگار بحال کرنے میں دشواری پیدا ہوسکتی ہے، پھر خطے کی انتظامیہ، پولیس اور عدلیہ کے اعلی عہدوں پر غیر کشمیری تعینات کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام اور انتظامیہ کے بیچ روابط نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔

یہ نیشنل کانفرنس کی سرکار کے لیے سب سے بڑا چلینج ہے جس کا ادراک نئی دہلی میں مقامی جماعت آپ کے سربراہ اروند کیجریوال کو بخوبی ہوا ہے اور وہ اس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔

مقامی حکومت کے لیے بڑا امتحان اُس وقت شروع ہوگا جب وہ اندرونی خودمختاری بحال کرنے کی قرارداد اسمبلی سے پاس کراکے بی جے پی کی مرکزی سرکار کو نظر ثانی کے لیے بھیجے گی جہاں سے کسی حمایت کی کوئی توقع نہیں ہے۔

مگر نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعت کانگریس اس وقت کون سا رخ اختیار کرے گی اس کے بارے میں عوام میں خاصی تشویش ہے۔ کانگریس نے آج تک بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کا جواب نہیں دیا ہے۔

بقول تجزیہ نگار عوام نے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف اپنا ریفرینڈم دیا ہے اب یہ نیشنل کانفرنس پر منحصر ہے کہ وہ اس کو بحال کرانے کا عمل  کیسے انجام دیتی ہے۔

نوٹ: تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر