متحدہ عرب امارات: بارش برسانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال

دہائیوں پر محیط تحقیق اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود، تیل سے مالامال متحدہ عرب امارات میں، جہاں زیادہ تر آبادی غیر ملکی ہے، خشک سالی کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔

متحدہ عرب امارات میں 2 مئی 2024 کو ہونے والی موسلا دھار بارشوں کے بعد دبئی کی سیلاب زدہ سڑک پر گاڑیاں چل رہی ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

ایک پرتعیش ہوٹل کے سنگِ مرمر سے آراستہ ہال میں ماہرین ایک قدیم مسئلے کے جدید حل پر گفتگو کر رہے ہیں: متحدہ عرب امارات میں بارش کیسے برسائی جائے؟ یہ دولت مند خلیجی ملک دنیا کے سب سے بڑے صحراؤں میں سے ایک میں واقع ہے، جہاں پانی ہمیشہ ایک نایاب شے رہا ہے۔

دہائیوں پر محیط تحقیق اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود، تیل سے مالامال متحدہ عرب امارات میں، جہاں زیادہ تر آبادی غیر ملکی ہے، خشک سالی کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔ گرمیوں میں جھلسا دینے والی ہواؤں اور صحرائی موسم کے باوجود، یہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی بہترین کوششوں کے باوجود بارش نایاب ہی ہے۔

تاہم، گذشتہ ماہ ابوظبی میں ہونے والے بین الاقوامی بارش میں اضافہ کرنے کے منصوبے میں حکام نے ایک نئی امید کا اظہار کیا: مصنوعی ذہانت کی مدد سے آسمان سے زیادہ نمی کشید کرنے کا منصوبہ۔

متعدد منصوبوں میں ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام شامل ہے، جو بادلوں میں نمکیات یا دیگر کیمیکلز چھڑک کر بارش کے امکانات بڑھانے کے عمل، یعنی مصنوعی طریقے سے بارش برسانے (Cloud Seeding)، کو مزید مؤثر بنائے گا۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کے سکرپس انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی میں قائم سینٹر فار ویسٹرن ویدر اینڈ واٹر ایکسٹریمز کے نائب ڈائریکٹر لوکا ڈیلے مونے کے نے کہا: ’یہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے، ہم آخری مراحل میں ہیں۔‘

تاہم، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مصنوعی ذہانت کوئی ’جادوئی حل‘ نہیں ہے، اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک دہائیوں سے مصنوعی بارش برسانے کے تجربات کر رہے ہیں۔

لوکا ڈیلے مونے کے نے کہا اس عمل میں ہوا میں موجود پانی کے قطروں کی جسامت بڑی کر کے بارش کی صورت میں برسانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے بارش میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔

لیکن یہ طریقہ صرف مخصوص قسم کے بادلوں، جیسے کیمولس بادل (Cumulus Clouds)، پر کام کرتا ہے اور اگر درست طریقے سے نہ کیا جائے تو اس سے الٹا بارش روک بھی سکتی ہے۔

ڈیلے مونے کے نے مزید وضاحت کی: ’یہ کام صحیح جگہ اور صحیح وقت پر کرنا ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں۔‘

تین سالہ یہ منصوبہ، جس کے لیے متحدہ عرب امارات کے بارش میں اضافہ کرنے کے منصوبے نے 15 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی ہے، سیٹلائٹ، ریڈار اور موسمیاتی ڈیٹا کو ایک الگورتھم میں فیڈ کرتا ہے، جو اگلے چھ گھنٹوں میں ایسے بادلوں کی نشاندہی کرے گا جن پر مصنوعی بارش کا طریقہ مؤثر ہو سکتا ہے۔

یہ طریقہ موجودہ طریقہ کار سے زیادہ جدید ہے، جس میں ماہرین سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کر کے طیاروں کو مخصوص مقامات پر بھیجتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں مصنوعی بارش برسانے کے لیے ہر سال سینکڑوں ایسے طیارے بھیجے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سالانہ بارش کی اوسط مقدار 100 ملی میٹر (3.9 انچ) کے قریب ہے، اور تقریباً ایک کروڑ کی آبادی زیادہ تر سمندری پانی صاف کرنے والے پلانٹس (Desalination Plants)  پر انحصار کرتی ہے، جو دنیا بھر میں 14 فیصد صاف پانی پیدا کرتے ہیں۔

آبادی کا 90 فیصد حصہ غیر ملکیوں پر مشتمل ہے اور 1971 میں متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد سے یہ تقریباً 30 گنا بڑھ چکی ہے۔ لوگ زیادہ تر دبئی، ابوظبی اور شارجہ جیسے بڑے شہروں میں مقیم ہیں، جو وسیع عربی صحرا کے پس منظر میں ساحلی پناہ گاہیں سمجھی جاتی ہیں۔

تاہم، زراعت اور صنعتوں کے لیے زمینی پانی بھی درکار ہوتا ہے، جو قدرتی بارش اور ڈیموں کے ذریعے پانی ذخیرہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

اگرچہ متحدہ عرب امارات کے حکام کا کہنا ہے کہ بارش میں اضافہ ہوا ہے، لیکن موسلا دھار بارش اب بھی اتنی نایاب ہے کہ جب کبھی برستی ہے تو سکول کے بچے تالیاں بجانے لگتے ہیں اور بہتر نظارہ کرنے کے لیے کلاس روم کی کھڑکیوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

بارش، چاہے مصنوعی ہی کیوں نہ ہو، یہاں اتنی غیر معمولی چیز ہے کہ یہ ایک تفریحی کشش بن چکی ہے۔

دبئی کی ’بارش والی گلی‘ (Raining Street) میں سیاح 300 درہم ( 81 ڈالر) ادا کر کے مصنوعی بوندا باندی میں چہل قدمی کرتے ہیں۔

گذشتہ اپریل  ریکارڈ توڑ طوفانی بارشوں نے دبئی کے مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بند کر دیا، سڑکیں زیر آب آ گئیں، اور شہر کئی دنوں تک مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔

مروان تمیمی، جو سٹیونز انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، نیو جرسی میں معاون پروفیسر ہیں، نے ایک امریکی نظام پر روشنی ڈالی جو مشین لرننگ کی مدد سے طوفانوں کے راستے اور ان کے اثرات کا حقیقی وقت میں تجزیہ کرتا ہے۔

تاہم، تمیمی نے بھی ڈیلے مونے کے کی طرح مصنوعی ذہانت کے ممکنہ چیلنجز پر زور دیا اور واضح حدود کی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ بادلوں کی ساخت سے متعلق تفصیلی ڈیٹا کی کمی، جو کہ ایک عام مسئلہ ہے کیونکہ نگرانی کا ساز و سامان مہنگا ہوتا ہے، مصنوعی ذہانت کے ذریعے درست پیش گوئیوں میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔

تمیمی نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں یہ کہوں گا کہ ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے پاس کچھ ڈیٹا تو ہے، لیکن ماڈلز کو درست طریقے سے تربیت دینے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔‘

حکومتی، تجارتی، اقوام متحدہ اور دیگر گروپوں کی ورلڈ واٹر کونسل کے صدر لوئک فوشون نے بھی مصنوعی ذہانت پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کے بارے میں خبردار کیا۔

انہوں نے فورم میں کہا: ’احتیاط کریں۔ مصنوعی ذہانت اور انسانی ذہانت کے درمیان صحیح توازن تلاش کریں۔ مصنوعی ذہانت کی طرف بہت تیزی سے نہ بڑھیں، کیونکہ سب سے بہتر انتخاب شاید خود انسان ہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا