غزہ میں منگل (18 مارچ) کو طلوع آفتاب سے قبل شروع ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں نے فلسطینیوں کو دوبارہ اس بھیانک خواب میں دھکیل دیا، جس کے ختم ہونے کی وہ امید کر رہے تھے۔
یہ بمباری منگل کی صبح غزہ بھر میں جاری رہی، جس سے جنوبی شہر خان یونس میں ایک وسیع خیمہ بستی کو آگ لگ گئی اور حماس کے زیر انتظام ایک جیل کو ملبے میں بدل دیا۔ یہ حملے غزہ شہر میں التابعین پناہ گاہ پر بھی ہوئے، جہاں ماجد ناصر اپنے خاندان کے ساتھ سو رہے تھے۔
انہوں نے کہا: ’میں یہ دیکھنے کے لیے باہر نکلا کہ بمباری کہاں ہو رہی ہے۔ اچانک دوسرا حملہ ہمارے ساتھ والے کمرے پر ہوا۔ میں نے چیخ و پکار سنی، میری والدہ اور بہن مدد کے لیے پکار رہی تھیں۔ میں اندر داخل ہوا اور دیکھا کہ بچے ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے۔‘ سب زخمی تھے، مگر زندہ تھے۔
فلسطینیوں نے اپنے ہاتھوں سے ملبے میں دبی لاشوں کو نکالنے کی کوشش کی۔ والدین ننگے پاؤں اپنے بچوں کو ہسپتال لے کر پہنچے، جو راکھ میں لپٹے ہوئے اور بے جان نظر آ رہے تھے۔ گلیاں اور ہسپتال لاشوں سے بھر گئے۔
دوپہر تک 400 سے زائد افراد جان سے جا چکے تھے۔ یہ 17 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے مہلک ترین دنوں میں سے ایک تھا، جو دو ماہ کی فائر بندی کے بعد پیش آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
19 جنوری کو شروع ہونے والی فائر بندی کے دوران لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئے، حالانکہ ان کے مکانات تباہ ہو چکے تھے۔ اس دوران بڑی تعداد میں خوراک اور ادویات فراہم کی گئیں، لیکن اسرائیل نے دو ہفتے قبل حماس کو ایک نئی تجویز قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ امداد روک دی۔
رمضان کے مقدس مہینے نے لوگوں کو کچھ لمحوں کی خوشی فراہم کی تھی، جہاں خاندان روزے کے بعد اجتماعی افطار کرتے تھے، بغیر اس خوف کے کہ کوئی بمباری ہوگی۔
مگر اب وہی جنگ جو ہزاروں فلسطینیوں کی جان لینے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تباہی مچا چکی ہے، پوری شدت کے ساتھ واپس آ چکی ہے۔
خان یونس میں جلے ہوئے خیموں کے درمیان کھڑے زید عابد نے کہا: ’جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ جہنم ہے، ہر لحاظ سے جہنم۔‘
غزہ شہر میں بے گھر خاتون فدا حریز نے کہا کہ متاثرین کو ان کے سحری کے وقت نیند میں ہی مار دیا گیا۔
انہوں نے کہا: ’لوگوں نے سحری کے لیے الارم لگایا، وہ جاگے ہی نہیں؟‘
فدا حمدان نے خان یونس میں اپنے شوہر اور دو بچوں کو کھو دیا۔ جب ان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا:’میرے بچے بھوکے ہی مارے گئے۔‘
ہسپتالوں میں قیامت کا منظر
ہسپتالوں کے مناظر اسرائیلی جارحیت کے ابتدائی دنوں کی یاد دلا رہے تھے، جب اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے کے ردعمل میں غزہ پر شدید بمباری کی تھی۔
زندہ بچ جانے والے افراد منگل کو غزہ سٹی کے الشفا ہسپتال کے صحن میں قطار میں رکھی درجنوں لاشوں کے سامنے جنازے کی دعائیں پڑھ رہے تھے۔ مائیں خون میں لت پت بچوں کی لاشوں پر رو رہی تھیں، جبکہ جنگی طیارے فضا میں منڈلا رہے تھے۔ ڈاکٹر شدید زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈاکٹر تانیا حاج حسن، جو میڈیکل ایڈ فار فلسطینین تنظیم کے ساتھ رضاکار ہیں، نے کہا: ’یہ ایک ایسا خوفناک اور بدترین منظر تھا جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ واقعی قیامت جیسا محسوس ہوا۔‘
انہوں نے خان یونس کے ناصر ہسپتال کے ہنگامی وارڈ کی حالت کو ’افراتفری‘ قرار دیا، جہاں مریض، بشمول بچے، زمین پر پڑے تھے۔ کچھ اب بھی ان کمبلوں میں لپٹے ہوئے تھے، جن میں وہ سو رہے تھے۔
ڈاکٹر اسماعیل عواد، جو ڈاکٹروں کی فلاحی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نے کہا کہ ان کے کلینک میں 26 زخمی لائے گئے، جن میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھیں، جن کی گردن مین بم کے ٹکڑے پیوست تھے۔ وہ بعد میں جانبر نہ ہو سکیں۔
ڈاکٹر عواد نے کہا: ’یہ ناقابل یقین حد تک تکلیف دہ تھا، زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔‘
جنوبی غزہ میں مواسی کے علاقے میں قائم العطار کلینک کے طبی عملے نے بتایا کہ انہیں بلب اور ہنگامی وینٹی لیشن آلات کے بغیر ہی کام کرنا پڑا۔
اسرائیل نے دو ہفتے قبل غزہ میں تمام امداد داخل ہونے سے روک دی تھی اور گذشتہ ہفتے علاقے کے مرکزی صاف پانی کے پلانٹ کی بجلی بھی کاٹ دی تھی۔ اس کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے لیے دوائیوں، خوراک، ایندھن اور تازہ پانی کی قلت مزید بڑھ گئی ہے۔
فلسطینیوں کی ایک بار پھر نقل مکانی
اسرائیل کے نئے انخلا کے احکامات، جو غزہ کی مشرقی سرحد اور اہم شمالی-جنوبی راستے کے قریب علاقوں کو خالی کرنے سے متعلق تھے، فلسطینیوں کو ایک بار پھر بے گھر ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے عربی ترجمان اویچائے ادرعی نے ایکس پر ایک نقشہ جاری کیا، جس میں فلسطینیوں کو متنبہ کیا گیا کہ ان علاقوں کو فوری طور پر چھوڑ دیں اور پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔
انہوں نے کہا: ’متعلقہ علاقوں میں رہنے کا مطلب ہے کہ آپ اور آپ کے خاندان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔‘
یہ انخلا کا علاقہ غزہ کے مرکزی شمال-جنوبی راستے کے کچھ حصوں پر بھی محیط تھا، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ سفر کیسے کریں گے، تاہم فلسطینیوں نے اپنی اشیا اکٹھی کیں اور نکل پڑے، یہ جانے بغیر کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
یونیسف کی ترجمان روزالیا بولن نے کہا کہ بمباری سے پہلے ہی ماحول میں ایک بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ بچے پوچھتے تھے کہ کیا جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی؟
انہوں نے کہا: ’یہ بھیانک خواب سب کے ذہن میں تھا، یہ واقعی دل دہلا دینے والا ہے کہ یہ خوف اب حقیقت بن رہا ہے، اور اس آخری امید کو بھی چکنا چور کر رہا ہے جو لوگوں کے پاس بچی تھی۔‘