قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی عدم شرکت کو دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے ’مایوس کن‘ اور ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں سیاست کو دہشت گردی سے الگ رکھ کر ملک کو بالاتر رکھنا چاہیے۔
صوبہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر 11 مارچ کو ہونے والے حملے کے بعد منگل کو اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس ہوا، جس میں حکومتی جماعت کے علاوہ ان کی اتحادی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی موجود تھی۔
اس اجلاس میں ملک کی قومی سیاسی و عسکری قیادت نے ’پوری طاقت‘ کے ساتھ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے اور متحد سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم قومی سلامتی کا یہ اجلاس ماضی میں ہونے والے دیگر اجلاسوں سے اس لحاظ سے مختلف رہا کیونکہ اس میں اپوزیشن کی کچھ بڑی جماعتوں کی موجودگی نظر نہیں آئی۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے بانی چیئرمین عمران خان کو پیرول پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ایسا نہ ہونے پر اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
اس سے قبل پیر کو اپوزیشن الائنس کے زیر اہتمام افطار ڈنر میں انڈپینڈنٹ اردو سے غیر رسمی گفتگو میں چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان نے اجلاس میں شرکت کا عندیہ دیا تھا۔ ’ہم قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ہر صورت جائیں گے اور اس حوالے سے نام بھی بجھوا دیے ہیں۔‘
تاہم بعدازاں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے ’اس اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کیا، جس کے بعد ہمارا کوئی نمائندہ اس میں نہیں گیا، سوائے علی امین گنڈاپور کے، جنہوں نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے طور پر شرکت کی۔ اس بات کا فیصلہ سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں ہوا۔‘
اس سے قبل خیبر پختونخوا ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں سلمان اکرم راجہ نے کسی بھی ممکنہ آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: ’اس وقت ہم کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں، 77 برس سے ان حالات کا شکار ہیں، جن کے حق میں ہم نہیں ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو پیرول پر رہا کیا جائے تاکہ وہ اس اجلاس میں شرکت کر سکیں۔‘
وفاقی وزیر دفاع و ہوا بازی خواجہ آصف نے اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان ان کی اول اور آخری ترجیح ہے۔ بقول خواجہ آصف: ’وطن کی سلامتی اور امن پی ٹی آئی کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔ وطن دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے جبکہ یہ اپنے مفادات کی سیاست کر رہی ہے۔ اس سے بڑھ کے وطن دشمنی کیا ہو سکتی ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کی عدم شرکت پر کہا کہ ’جنگ کے وقت ملک کو سیاست سے بالاتر‘ رکھنا چاہیے۔
ایکس پر اپنے پیغام میں بلاول نے کہا: ’عمران خان نے وزیر اعظم رہتے ہوئے کبھی بھی پارلیمانی سکیورٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ نہ دہشت گردی پر، نہ کشمیر پر نہ انڈین جارحیت کے معاملے پر۔ آج وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں اور یہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تھا۔ قابل رحم پی ٹی آئی اصرار کرے گی کہ وہ ابھی حاضر ہوں۔ جنگ کے وقت ملک کو سیاست سے بالاتر رکھنا ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔‘
قومی سلامتی سے متعلق اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت پر انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف تجزیہ کاروں سے بات کی، جنہوں نے اس عمل کو ’مایوس کن‘ قرار دیا۔
صحافی مہمل سرفراز نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ کافی مایوس کن اور افسوس ناک بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ہم عالمی دہشت گردی کے انڈیکس میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا دوسرا ملک ہیں، جب دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب ہم نے ابھی جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ جیسے بڑے دہشت گرد حملے کا مشاہدہ کیا ہے، سیاسی طبقے میں اتحاد نہیں ہے۔‘
مہمل کے مطابق: ’اس اہم سکیورٹی اجلاس کا اپوزیشن کی جانب سے بائیکاٹ سیاسی پولرائزیشن کی عکاسی کرتا ہے، جس کا ہم گذشتہ کچھ سالوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں، تاہم یہ وقت یہ ظاہر کرنے کا نہیں تھا کہ ہمارے سیاسی طبقے میں تقسیم ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیموں کو یہ پیغام دینے کا وقت تھا کہ ہمارے سیاسی اختلافات اور نظریات کے باوجود ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں۔‘
صحافی عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی نے ایک اہم موقع گنوا دیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’وہ جو آئین و قانون کی باتیں کرنا چاہ رہے تھے، انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنی بات کرنے کا موقع مل رہا تھا، انہوں نے دہشت گردی سے سیاست کو الگ کرنے کے موقف کی نفی کی۔‘
عاصمہ نے سوال اٹھایا کہ ’جب ابھی نندن کا واقعہ ہوا تب عمران خان نے کہا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیں گے تو اب انہیں پیرول پر لانے کا کیسے کہا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی کے اس اقدام سے یہ سیاسی پیغام گیا ہے کہ وہ اپنی سیاست کو مقدم رکھتے ہیں جو کہ ایک خطرناک اور افسوس ناک بات ہے۔‘