خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں پریس کلب کی جانب سے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے تحت ’منفی پروپیگنڈا‘ کرنے پر ایک عام شہری کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا ہے۔
مردان پولیس کے ترجمان محمد فہیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ مقدمہ مردان میں پریس کلب کے صدر محمد ریاض خان مایار کی مدعیت میں تھانہ سٹی میں درج کروایا گیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ زاہد نامی شخص کئی سالوں سے پریس کلب اور کلب کے اراکین کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کی دفعہ 20 (کسی ڈیوائس کے ذریعے دانستہ طور پر کچھ لکھنا، ڈیٹا چوری کرنا جس کی سزا دو سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہے) اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 500 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مردان پریس کلب کے صدر محمد ریاض خان مایار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، وہ دو تین سالوں سے کلب کے اراکین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہے تھے اور آخر کار ہم نے تنگ آکر ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ مقدمہ پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے اور کوئی بھی قانون اگر ذاتی مفاد سے بالاتر ہو، تو اسے انصاف کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ریاض خان مایار نے بتایا: ’پیکا ایکٹ پر بعض تنظیموں کو تحفظات بھی ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر اس قانون کو مزید بہتر بنائے تاکہ سوشل میڈیا کے بے لگان استعمال کو بھی کنٹرول کیا جا سکے۔‘
پیکا قانون کیا ہے؟
آن لائن اور ڈیجیٹل معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے 2016 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اُس وقت کی حکومت نے پیکا ایکٹ پاس کیا تھا، جسے شدید تنقید کانشانہ بنایا گیا تھا۔
اس قانون کے تحت آن لائن سپیس میں شدت پسندی، نفرت آمیز مواد، کسی ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی سمیت مختلف جرائم کے لیے سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
موجودہ حکومت نے گذشتہ ماہ اس ایکٹ میں ترامیم منظور کیں اور اب یہ ایک قانون کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
اس قانون کے تحت جعلی خبروں کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کے الزام میں تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، ایمنسٹی انٹرنیشنل، صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے ان ترامیم کو اظہارِ آزادی رائے پر حملہ قرار دیا ہے۔
جبکہ پی ٹی آئی سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اس قانون پر تنقید کی ہے۔
ایک جانب صحافتی و سول سوسائٹی کی تنظیموں کے پیکا ایکٹ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، وہیں دوسری جانب اسی ایکٹ کے تحت مردان پریس کلب کی جانب سے مقدمے کے اندراج کے معاملے پر خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر کاشف الدین سید نے بتایا کہ ’کوئی قانون برا نہیں ہوتا لیکن ذاتی مفاد کے لیے استعمال کی وجہ سے وہ برا ہوجاتا ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پیکا ایکٹ پر ہمارا یہی موقف رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی بھرمار کو روکنا ضروری ہے لیکن اس کی آڑ میں سوشل میڈیا یا صحافیوں پر بندشیں قبول نہیں ہے۔‘
کاشف الدین سید کا مزید کہنا تھا: ’ماضی کے تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ عوامی مفاد کے لیے بنے قوانین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور اب بھی ہمیں یہی خدشہ ہے کہ ہر حکومت آکر راتوں رات پیکا ایکٹ میں اپنی مرضی کی ترامیم کر دیتی ہے، جس میں سٹیک ہولدڑز کی مشاورت بھی نہیں لی جاتی۔‘