غزہ پر اسرائیلی جارحیت قابل مذمت، اس سے قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں: پاکستانی مندوب

منیر اکرم نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی فضا بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم سکیورٹی کونسل اجلاس سے 21 مارچ 2025 کو خطاب کرتے ہوئے (اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مشن)

پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت، متواتر بمباری اور فضائی حملوں کی شدید مذمت کی، جن میں نہتے فلسطینی شہریوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق غزہ میں محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کے جمعرات کی شب کیے گئے تازہ فضائی حملوں میں کم از کم 85 فلسطینی قتل کیے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے فائر بندی معاہدہ توڑنے کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر تقریباً 600 فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔

ایکس پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق جمعرات کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی بریفنگ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ ’تواتر سے جاری حملوں اور مستقل بمباری کی وجہ سے انتہائی درجے کی تباہی ہوئی۔ فلسطینیوں کو اندھا دھند اور بے رحمی سے مارا جا رہا ہے۔ یہ قیدیوں کی رہائی حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘

منیر اکرم نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی فضا بڑھ رہی ہے۔

ان کے بقول: ’ہمیں عرب اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے غزہ کے تعمیر نو کے پلان میں امید کی کرن نظر آئی تھی، جس سے امن کے لیے حقیقی راستہ ملنا ممکن تھا۔ ہمارے خیال سے یہ راہ ہموار کرنی چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے خطاب میں منیر اکرم نے پاکستان کی جانب سے عالمی برادری کی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کی طرف توجہ مبذول کروائی، جن کی وجہ سے بچے اور خواتین بھی جارحانہ حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی مظالم کی وجہ سے فلسطینیوں کو بغیر کسی وجہ کے حراست میں رکھا جا رہا ہے اور مسلسل بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

پاکستانی سفیر منیر اکرم نے کہا کہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری جنگ کا بنیادی نشانہ عام شہری بنے ہیں۔

منیر اکرم کا کہنا تھا کہ شہری تحفظ کے اصولوں کو بین الاقوامی انسانی قانون، جس میں چوتھا جنیوا کنونشن بھی شامل ہے، کی مکمل پاسداری کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

کمیشن آف انکوائری کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کی دیگر اقسام کا منظم استعمال کیا۔ اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے منیر اکرم نے کہا: ’اسرائیلی افواج نے جنس کی بنیاد پر انسانیت کے خلاف جرم کا ارتکاب کیا ہے۔‘

انہوں نے حالیہ سیزفائر معاہدے کے بارے میں کہا کہ وہ امید کی کرن معلوم ہوتا ہے، جس کی بدولت قیدیوں کی رہائی اور فلسطینیوں کے درد میں کمی واقع ہوئی ہو۔

تاہم پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ موقع اسرائیلی رہنماؤں کے سیاسی مقاصد کی وجہ سے سبوتاژ ہو رہا ہے، جن کو جنگ کے ذریعے اپنے ارادوں کو تقویت پہنچانی ہے۔

انہوں نے مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کو آگے بڑھانے اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کے لیے فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں آئندہ جون میں ہونے والی کانفرنس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان حمایت کرتا ہے کہ فائر بندی معاہدے کو جاری رکھا جائے اور اس کے تمام مرحلوں کو مکمل کیا جائے۔

پاکستانی سفیر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل میں غزہ سے جارحیت کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غیر محدود انسانی امداد کی رسائی اور غزہ کی تعمیر نو کا ایک جامع منصوبہ شامل ہونا چاہیے۔

’ہم سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 کے مکمل نفاذ کی حمایت کرتے ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے یہ بہترین طریقہ ہے۔‘

غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، سینکڑوں اموات

غزہ کی وزارت صحت کے ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ظاہر الوحیدی نے کہا کہ گذشتہ تین دنوں میں اسرائیلی بمباری میں کم از کم 592 افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حماس نے اسرائیل پر تین راکٹ فائر کیے ہیں، تاہم ان سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ منگل کو فائر بندی ٹوٹنے کے بعد حماس کا پہلا راکٹ حملہ تھا۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے شمالی غزہ، بشمول غزہ شہر، پر دوبارہ ناکہ بندی نافذ کر دی ہے۔ فلسطینیوں کو شمالی غزہ چھوڑنے کا حکم تو نہیں دیا گیا، مگر انہیں واپس داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، صرف ساحلی سڑک کے ذریعے پیدل جنوب کی طرف جانے کی اجازت ہے۔

فائر بندی کے دوران لاکھوں فلسطینی شمالی غزہ میں اپنے تباہ حال گھروں کو واپس آ گئے تھے۔

دریں اثنا، اسرائیلی زمینی افواج جمعرات کو شمالی شہر بیت لاہیا اور جنوبی سرحدی شہر رفح کے قریب غزہ میں پیش قدمی کر رہی ہیں۔ یہ کارروائیاں ایک دن بعد کی گئیں جب اسرائیل نے نیٹزاریم کوریڈور کے ایک حصے پر دوبارہ قبضہ کر کے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

فوج نے فلسطینیوں کو خان یونس کے قریب وسطی غزہ کے ایک علاقے سے نکلنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ کارروائی جمعرات کو حماس کی جانب سے کیے گئے راکٹ حملے کے جواب میں کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب حماس نے کہا کہ اس نے تل ابیب کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ایک راکٹ کو تباہ کر دیا گیا جبکہ دو راکٹ کھلے میدانوں میں گرے۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ رات بھر کے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 85 افراد قتل کیے گئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

انڈونیشین ہسپتال کے مطابق شمالی سرحد کے قریب بیت لاہیا میں حملوں کے بعد 19 لاشیں لائی گئیں، یہ علاقہ جنگ کے آغاز میں شدید تباہی کا شکار ہوا تھا اور زیادہ تر خالی ہو چکا ہے۔

فارس عواد، جو شمالی غزہ میں وزارت صحت کی ایمرجنسی سروس کے سربراہ ہیں، نے کہا: ’بیت لاہیا کے لوگوں کے لیے یہ ایک خونریز رات تھی۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’ریسکیو ٹیمیں ابھی بھی ملبے تلے زندہ لوگوں کی تلاش میں ہیں۔ صورت حال تباہ کن ہے۔‘

اسرائیلی فوج نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ اس کی فضائی کارروائیوں میں حماس کے داخلی سکیورٹی کے سربراہ اور دو دیگر کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا، جو مارے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے گذشتہ ہفتے اسرائیل پر’خواتین اور بچوں کے خلاف غیر متناسب تشدد‘ کا الزام لگایا تھا۔

اسرائیل، جس نے غزہ کی تقریباً 20 لاکھ کی آبادی کے لیے خوراک، ایندھن اور انسانی امداد بند کر دی ہے، اس وقت تک اپنی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جب تک کہ حماس اپنے قبضے میں موجود 59 قیدیوں (جن میں 24 کے زندہ ہونے کا خیال ہے) کو رہا نہیں کرتی اور علاقے کا کنٹرول چھوڑ نہیں دیتی۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک مستقل فائر بندی اور مکمل اسرائیلی انخلا کے بدلے باقی قیدیوں کو چھوڑے گی، جیسا کہ امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں طے پانے والے فائر بندی معاہدے میں ذکر ہے۔

حماس نے کہا ہے کہ وہ اقتدار مغرب نواز فلسطینی اتھارٹی یا غیرجانبدار سیاسی شخصیات پر مشتمل کمیٹی کو سونپنے کے لیے تیار ہے، مگر وہ اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل ان زمینوں پر اپنا قبضہ ختم نہیں کرتا، جنہیں فلسطینی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔

شن بیت کا سربراہ برطرف

جمعے کی صبح، اسرائیلی کابینہ نے متفقہ طور پر وزیراعظم بن یامن نتن یاہو کی درخواست پر ملک کی داخلی سکیورٹی ایجنسی شن بیت کے سربراہ کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔

وزیراعظم نتن یاہو نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ وہ رونن بار کو ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سکیورٹی چیف پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ ان کے دفتر کا کہنا ہے کہ بار کی برطرفی 10 اپریل سے نافذ العمل ہوگی یا اس سے پہلے اگر کوئی متبادل مل گیا۔

رونن بار نے اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن کابینہ کو پیشگی ایک خط بھیجا، جس میں برطرفی پر اعتراض کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ برطرفی ایجنسی کو سات اکتوبر 2023 کے حملے کی ناکامیوں کی مزید تحقیقات سے روکنے اور اس بات کی جانچ کو کمزور کرنے کے لیے کی جا رہی ہے کہ آیا قطر نے وزیراعظم کے دفتر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔

رونن بار نے لکھا: ’یہ اسرائیل کی ریاست کی سکیورٹی کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔‘

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی جارحیت میں اب تک 49,000 سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں، مرنے والوں میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا