پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں منگل کو میڈیا سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔
تاہم اس موقع پر قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے یہ کہتے ہوئے احتجاجاً واک آؤٹ کیا کہ اس پر ان سے سیرحاصل گفتگو نہیں کی گئی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بل پر ساڑھے تین سال مشاورت ہوئی لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ مشاورت کن سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہوئی۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی زیر صدارت جب ایوان بالا کا اجلاس شروع ہوا تو حکومت کی جانب سے مرتب کردہ مسودہ قانون ایوان میں پیش کیا گیا۔
سینیٹ میں جب ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی تحریک منظور کی گئی تو اس کے بعد سے اپوزیشن اراکین مختلف اوقات میں احتجاج کرتے رہے۔
اجلاس کے دوران جہاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ یہ بل پیش کر رہے تھے وہیں دوسری جانب اپوزیشن سینیٹرز نے ایوان میں احتجاج شروع کر دیا۔
ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کی شق وار منظوری کے عمل کے دوران بھی یہ احتجاج جاری رہا۔ بل پر کامران مرتضیٰ نے ترامیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل نیشن بل صوبوں کے دائرہ کار میں مداخلت ہے۔
اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز چیئرمین ڈائس کے قریب پہنچ گئے اور سیکرٹری سینیٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سخت جملے بولے۔
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر ایمل ولی وزیر قانون کی نشست پر پہنچ کر احتجاج کرنے لگے۔
حالانکہ اجلاس میں اس وقت تک پیکا ترمیمی بل نہیں لایا گیا تھا تاہم اپوزیشن اراکین اس پر تنقید کرتے نظر آئے۔
اس دوران سینیٹر ایمل ولی نے کہا کہ ’پیکا ایکٹ ترمیمی بل کالا قانون ہے، اظہار رائے پر پابندی لگ رہی ہے۔ پیکا ایکٹ سے بوٹوں کی خوشبو آ رہی ہے۔‘ اس کے بعد اے این پی ایوان سے واک آوٹ کر گئی۔
’پریس کوئی پی ٹی آئی نہیں‘
سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ’قانون سازی ہمارا کام ہے، قانون بغیر مشورے کے پاس کروایا جا رہا ہے۔ پیکا ایکٹ جن سے متعلق ہے آپ ان سے مشاورت کرتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس قانون سے سیاسی انتقام میں زور آئے گا، کسی کو بھی اٹھا لیں گے کہ آپ نے پیکا قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آپ نے صحافیوں سے مشاورت نہیں کی، قانون ایسے پاس نہیں ہوتے اس کی منظوری کے لیے مہینے لگائے جاتے ہیں۔‘
اس دوران پارلیمان کو کور کرنے والے صحافیوں کی تنظیم پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ’پریس واک آؤٹ کر گئی ہے۔ وہ احتجاج کر رہی ہے، پریس کوئی پی ٹی آئی نہیں۔ آپ نے بغیر مشورے کے ایسا قانون بنا دیا جس کے اثرات ہیں۔‘
بعد ازاں وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی تحریک ایوان میں پیش کر دی اور پیکا ایکٹ ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک سینیٹ سے منظور کی گئی۔
جس کے بعد بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کر دیا گیا۔
شبلی فراز نے کہا کہ وہ ’اس بل کی حمایت نہیں کر رہے، تاہم وزرا کی باتیں درست ہیں کہ جھوٹ پر مبنی خبر پھیلانے کی کوئی حمایت نہیں کرتا۔‘
بل پیش کرنے والے وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا کہ اگر بل میں کچھ رہ گیا ہے تو ہم اس میں صحافیوں کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم کر لیں گے۔
سینیٹر علی ظفر نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے بل پر کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی، آپ اپوزیشن کو اہمیت نہیں دیتے۔‘
ترمیمی بل منظور کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر اور قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے ایوان سے واک آؤٹ کرنے کا کہا تاہم اراکین ایوان میں موجود رہے۔