ریاستی پالیسیوں میں بنا تبدیلی کوئی بھی ایکشن بے سود: پشتون قومی جرگہ

پشتون قومی جرگے نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی کی صورت حال پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں کی گئی بحث پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ریاستی پالیسیوں میں کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر‘ کوئی بھی ایکشن ’بے سود‘ ہے۔

15 مارچ 2025 کی اس تصویر میں بلوچستان میں دور دراز پہاڑی علاقے میں سکیورٹی اہلکار جعفر ایکسپریس کے قریب تعینات ہیں، جس پر بلوچ لبریشن آرمی نے 11 مارچ کو حملہ کرکے مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا (اے ایف پی)

پشتون قومی جرگے نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی کی صورت حال پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں کی گئی بحث پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو خیبر پختونخوا میں امن کی بحالی کے لیے مذاکرات اور مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی دعوت دی ہے۔

ترجمان پشتون قومی جرگہ برکت آفریدی کی جانب سے 21 مارچ کو جاری کیے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اجلاس میں آرمی چیف کی طرف سے پاکستان کو مزید ’ہارڈ سٹیٹ‘ (آہنی ریاست)  بنانے کا اعلان کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک بحران زدہ اور جنگ زدہ ملک کو نہ تو زبردستی جوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی طاقت اور بندوق کے زور پر۔ درحقیقت، ایسا کرنے سے اس کا شیرازہ مزید تیزی سے بکھر جائے گا۔‘

پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے 18 مارچ کو ہونے والے اجلاس میں ملک کی قومی سیاسی و عسکری قیادت نے ’پوری طاقت‘ کے ساتھ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے اور متحد سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ’دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ‘ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم پشتون قومی جرگے نے ’ریاستی پالیسیوں میں کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر‘ کسی بھی ایکشن کو ’بے سود‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن کی بحالی کے لیے یہ اقدامات کیے جانے چاہییں:

طالبان کا خاتمہ: پشتون قومی جرگے نے دفاعی پالیسی میں بنیادی تبدیلی، جنگوں کے خاتمے، پراکسی جنگ کے تمام انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر ختم کیے جانے اور نئے عسکری گروہوں کی تشکیل بند کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ کہا کہ ’پاکستان کے بطور سامراجی فرنٹ لائن ریاست کے کردار کو ختم کیا جائے۔‘

نیا عمرانی معاہدہ: بیان میں کہا گیا ہے کہ ’حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور جمہوری‘ بنا کر ’اختیارات کی مرکزیت کو ختم‘ کیا جائے اور ’عدم مرکزیت پر مبنی آئین تشکیل دیا جائے جو رضاکارانہ وفاقی جمہوری نظام کے اصولوں پر مبنی ہو، جس میں وفاقی حکومت کو حکمرانی کے صرف محدود اختیارات کے ساتھ چار موضوعات دفاع، کرنسی، مواصلات اور خارجہ امور تک محدود‘ رکھا جائے۔

یہ بھی کہا گیا کہ منتخب وفاقی پارلیمانی نظام اور تمام دوسرے وفاقی اداروں میں قومی اکائیوں کی ’مساوی نمائندگی‘ ہو۔

پر امن بقائے باہمی پر مبنی آزاد خارجہ پالیسی:  پشتون قومی جرگے نے اپنے بیان میں آزاد خارجہ پالیسی کے قیام اور تمام پڑوسی ممالک، خاص طور پر افغانستان اور انڈیا کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر دوستانہ تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکمرانی اور معیشت میں عسکری  اور سامراجی اثر و رسوخ کا خاتمہ:  اپنے بیان میں پشتون قومی جرگے نے مطالبہ کیا ہے کہ فوج کے ’تمام کارپوریٹ ادارے اور کاروبار اور حکمرانی کے اختیارات قومی اکائیوں کے سول اداروں کے سپرد کیے جائیں۔‘

انتخابی اصلاحات: بیان میں کہا گیا کہ ’انتخابی انجینیئرنگ اور دھاندلیوں سے بننے والی بے اختیار حکومتوں کے خاتمے اور جمہوریت کی تشکیل کے لیے متناسب نمائندگی پر مبنی انتخابی نظام اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔‘

اپنے بیان میں پشتون قومی جرگے نے عید کے بعد لا اینڈ آرڈر کے موضوع پر منعقد کی جانے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے پیغام دیا کہ ’پشتون قوم کا نیشنل ایکشن پلان، 13 اکتوبر 2024 کو پشتون قومی جرگے میں شریک لاکھوں امن دوست عوام سے منظور شدہ 22 نکاتی اعلامیہ ہے۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’پشتون قومی جرگے کے 13 اکتوبر 2024 کے اعلامیے پر عملدرآمد اور پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کے موضوع کو کانفرنس کے ایجنڈے پر لائے بغیر، ہمارے لیے یہ کانفرنس بے معنی ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان