پاکستان نے جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے کیونکہ اسرائیل مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق: ’پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جاری نسل کشی کو مغربی کنارے تک پھیلا دیا ہے، اور اگر اس وحشیانہ جنگ کو روکا نہ گیا تو طاقتور اور جارح ریاستوں کی بدترین فطرت بے نقاب ہو جائے گی، اقوام متحدہ کے چارٹر کے وہ اصول جنہیں جارحیت اور جنگ سے بچاؤ کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، چکنا چور ہو جائیں گے اور دنیا ایک ہوبزیائی جہنم‘ (Hobbesian hell) میں تبدیل ہو جائے گی جہاں صرف تصادم اور تباہی کا راج ہوگا۔‘
بیان کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اسرائیل کی اس جاری نسل کشی کو دیکھتے نہ رہیں، کیونکہ اسرائیل اپنے اقدامات میں مکمل استثنیٰ محسوس کر رہا ہے اور اسے یقین ہے کہ سلامتی کونسل اس کے خلاف کسی قرارداد پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جمعے کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورت حال پر پاکستان کا قومی بیان دیتے ہوئے اسرائیل کی حالیہ جارحیت، بشمول غزہ پر دوبارہ بمباری اور انسانی امداد کی منظم ناکہ بندی کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے 90 فیصد سے زائد غزہ کی آبادی بھوک کا شکار ہے۔ ’نوزائیدہ بچے مر رہے ہیں۔ سویلین عمارتوں جن میں ہسپتال، سکول اور مساجد شامل ہیں، جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے بہانے تباہ کی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی قانون، بشمول انسانی حقوق کے قوانین کے ہر اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘
منیر اکرم نے زور دیا کہ اسرائیل نے واضح طور پر اعلان کر رکھا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں پر ہونے والے اثرات کی پروا کیے بغیر اپنی جارحیت جاری رکھے گا۔
انہوں نے اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے فوجی چھاپے، آباد کاروں کے حملے اور غیر قانونی زمینوں کا انضمام فلسطینی عوام کو مغربی کنارے سے بے دخل کرنے کے ایک منظم منصوبے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سات اکتوبر 2023 سے چار مارچ 2025 کے درمیان 896 فلسطینی، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے، بشمول مشرقی بیت المقدس میں قتل کیے گئے، جن میں سے 90 فلسطینی اس سال کے آغاز سے اب تک قتل ہوئے۔
سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے منتخب اراکین سے اپیل کی کہ وہ اس بربریت کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ان منتخب اراکین کو جنرل اسمبلی کی جانب سے امن و سلامتی کے قیام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے دفاع کا براہ راست مینڈیٹ حاصل ہے۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ
۔ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں فوجی کارروائیاں روکنی چاہییں اور ایک مستقل فائر بندی قائم کی جانی چاہیے۔
۔ غزہ پر انسانی امداد کی ناکہ بندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کو مکمل رسائی دی جائے تاکہ شہریوں کو فاقہ کشی سے بچایا جا سکے۔
۔ 15 جنوری کے معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے، جس میں مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا شامل ہے، جبکہ قطر، مصر اور امریکہ جیسے ثالثوں کو اس عمل میں معاونت کرنی چاہیے۔
۔ غزہ کی بحالی اور گورننس کے لیے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تاکہ دیرپا استحکام یقینی بنایا جا سکے۔
۔ ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل شروع کیا جائے جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے، جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت کو روکنے، فائر بندی کو برقرار رکھنے اور انسانی بحران کے خاتمے میں کردار ادا کر سکے تو یہ اگلے جون میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں ہونے والی کانفرنس میں دو ریاستی حل کے لیے سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی کا غزہ میں فائر بندی پر زور
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے جمعے کو ایک مشترکہ بیان میں غزہ میں فوری طور پر فائر بندی کی بحالی اور اسرائیل سے انسانی امداد کی فراہمی بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق ان تینوں ممالک، جنہیں اجتماعی طور پر ای تھری کہا جاتا ہے، کے وزرائے خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: ’ہم اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی امداد کی رسائی بحال کرے، جس میں پانی اور بجلی کی فراہمی بھی شامل ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق طبی سہولیات اور وقتی طبی انخلا کی اجازت دے۔‘
وزرائے خارجہ نے کہا کہ وہ ’عام شہریوں کے قتل پر شدید صدمے میں ہیں‘، انہوں نے فلسطینی تنظیم حماس سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کا حل عسکری طریقے سے ممکن نہیں اور صرف طویل المدتی فائر بندی ہی امن کا واحد قابلِ بھروسہ راستہ ہے۔
وزرا نے مزید کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے پراجیکٹ سروسز کے دفتر کی عمارت کے واقعے پر گہرے صدمے میں ہیں اور اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں اپنی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق جمعے کو اسرائیلی حملوں میں 11 افراد قتل ہوئے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے اے ایف پی کو بتایا کہ تین افراد علی الصبح کے فضائی حملوں میں اور مزید آٹھ افراد دن کے وقت قتل ہوئے، جن میں سے چھ غزہ شہر میں اور دو جنوبی علاقے عبسان میں جان سے گئے۔
اسرائیلی فوج نے جمعے کو جنوبی غزہ کے تین علاقوں کے رہائشیوں سے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنے گھروں سے نکل جائیں کیونکہ ان علاقوں پر حملے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان آویخائے ادرعی نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا: ’تمام افراد جو السلاطین، الکرامہ اور العودہ کے نشان زدہ علاقوں میں موجود ہیں، یہ حملے سے پہلے کی ابتدائی وارننگ ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ ان گنجان آباد علاقوں میں آ کر راکٹ فائر کر رہی ہیں۔۔۔ اپنی حفاظت کے لیے فوراً جنوب کی طرف ان معروف پناہ گاہوں کی طرف روانہ ہو جائیں۔‘
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے خبردار کیا کہ اگر حماس غزہ میں موجود باقی اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرتی تو اسرائیل غزہ کے کچھ حصے ضم کر لے گا۔
کاٹز نے کہا: ’میں نے (فوج کو) غزہ میں مزید علاقے پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے۔۔۔ جتنا زیادہ حماس قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کرے گی، اتنا ہی زیادہ علاقہ وہ کھو دے گی اور وہ علاقے اسرائیل میں شامل کر لیے جائیں گے۔‘
ایک فلسطینی ذریعے نے، جو فائر بندی مذاکرات سے قریبی طور پر منسلک ہیں، جمعے کی رات اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کو مصر اور قطر کے ثالثوں کی جانب سے فائر بندی کی بحالی اور قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی ایک نئی تجویز دی گئی ہے، جو ’ایک طے شدہ ٹائم لائن کے تحت‘ ہوگا۔
ذرائع کے مطابق اس تجویز میں غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی بھی شامل ہے، جسے اسرائیل نے دو مارچ سے روک رکھا ہے۔
کاٹز نے مزید دھمکی دی کہ اگر حماس نے تعاون نہ کیا تو اسرائیل ’غزہ کے اردگرد کے بفر زون کو وسعت دے گا تاکہ اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی حفاظت کی جا سکے اور علاقے پر مستقل قبضہ نافذ کیا جائے گا۔‘
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے اب بھی 58 حماس کے قبضے میں ہیں، جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔