چلتی گاڑی میں سے ایک بچی باہر جھانک رہی تھی اور تجسس سے بھری اس کی بڑی بڑی مگر دھوپ سے چندھیائی آنکھیں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔
چھوٹی سی پونیاں تھیں اس کے سر پہ دو، جو ان سے باہر تھے بال، وہ ہوا سے اڑ رہے تھے، کھلتا ہوا رنگ تھا اور بہت ہی بھولا بھالا سا چہرہ تھا۔ کیوٹ گال اور چھوٹی سی ناک اس کی دیکھی تو بہت پیار آیا، عجیب سکون سا محسوس ہوا، بے ساختہ دل نے کہا کہ یار ۔۔۔ بچے کیسے پیارے ہوتے ہیں، دو تین اور ہونے چاہئیں لیکن ایک دم پھر یہ کالم بن گیا۔
ہوا یہ کہ جیسے ہی میں نے سوچا کہ بچے بہت سارے ہونے چاہئیں اسی وقت سگنل آ گیا اور گاڑی روکی تو سامنے شیشہ صاف کرنے پہ لڑتے جھگڑتے دو بچے تقریباً اگلے حصے پہ گرنے والی پوزیشن میں آ گئے۔
ایک لڑکی تھی آٹھ نو برس کی، پورا چہرہ سکارف میں اور سردی سے بچنے کے لیے کسی بے نام سے ہلکے رنگ کی جرسی پہنے ہوئے تھی۔ دوسرا جو تھا وہ لڑکا تھا، گیارہ بارہ سال کا، شدید الجھے گولڈن بال، سردی سے گالوں پہ ریشز بنے ہوئے، خدا جانے اس کی شلوار قمیص کا بھی اصل رنگ کیا ہو گا، جوتے اس کے پیروں میں نہیں تھے اور سوال آف کورس دس، بیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس روپے کا تھا۔
تب میں سوچنے لگا کہ ان بچوں کو دیکھ کر مجھے سکون کا ویسا احساس کیوں نہیں ہوا جیسا ابھی دو منٹ پہلے ہوا تھا؟ یہ بھی بچے ہیں لیکن انہیں دیکھ کر ایک دم جاگے ارمانوں پہ ہتھوڑا کیوں پڑ گیا؟
پھر مجھے خیال آیا کہ یار ایک دور ایسا تھا کہ بچہ میں بھی تھا اور خدا جانے میں نے کتنی بار سوچا ہو گا کہ آخر میرے اس دنیا میں نازل نہ ہونے سے کیا فرق پڑ جاتا؟ یعنی میں کیوں لایا گیا بھائی؟ کیا مجھ سے پوچھا کسی نے؟ کیا اب میرے ساتھ کوئی کام ویسے ہو رہا ہے جیسے میں چاہتا ہوں؟ نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟
پھر مجھے اس کا خیال آیا جو میری ایک عدد اولاد ہے، وہ بھی یہی سوچتی ہو گی، پھر مجھے ایک اور دوست کا خیال آیا، اس غریب کے پاس بھی بہت سارے ایسے ہی سوال ہیں، تو بچہ پیدا کرنا کیا ہے؟
مطلب راہ چلتے ہی دل کیا اور بس آپ نے بسم اللہ کر دی یا اس کے پیچھے کبھی کوئی پلاننگ بھی ہوتی ہے؟ اسے بھی چھوڑیں، کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جو بچہ دنیا میں آئے گا، ہم اس کے ذمے دار بھی ہوں گے؟ اس کی ہر خوشی کے، ہر غم کے، ہر مسئلے کے، ہر پریشانی کے، ہر سوچ کے ۔۔۔ بھئی جیسے اس وقت گاڑی میں وہ پیاری سی گڑیا جیسی بچی دیکھ کے اگر میں کوئی بندوبست کر لیتا، تو جو اولاد میری اس دنیا میں آتی، وہ پہلے سے موجود حیران پریشان ہجوم میں ایک نقطے سے بھی کم اضافے کے علاوہ کیا ہوتی؟
بچے پل ہی جاتے ہیں ۔۔۔ یہ ہمارے یہاں بالکل عام سی کہاوت ہے لیکن بھئی، وہی پلنے والے آپ بھی ہیں، میں بھی ہوں، آپ کو یہ پورا پیکج دکھا کر پوچھا جاتا کہ آپ نے اس دنیا میں قدم رکھنا ہے یا نہیں، تو آپ کیا کہتے؟
جو کہتے ہیں کہ ہاں، ہم تو آ جاتے، تو بھئی انہیں ان کا آنا مبارک، لیکن مجھ جیسے کئی اربوں کا قصور کیا ہے؟
اللہ کا شکر ہے، گزر گئی، باقی بھی گزر جائے گی لیکن یہ کیا ہوا کہ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے؟ زندگی نہ ہوئی 200 ایم ایل کا جوس ہو گیا کہ جیسے ہی مزہ آنا شروع ہوا، ختم؟
سین بہت پیچیدہ ہے، لیکن نئے بچوں میں کچھ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ انہیں بچے پیدا نہیں کرنے چاہئیں، اور ان میں لڑکیاں بھی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرے خیال سے ان کا ایسا سوچنا بنتا بھی ہے۔ ایک عورت بچے کی پیدائش کے بعد کیا ویسی رہتی ہے جیسے وہ پہلے تھی؟ جسم کا مختلف مراحل سے گزرنا، ہارمونوں کا تہس نہس ہونا، دماغی پریشانیاں، نیند، کھانے، چلنے، اٹھنے، بیٹھنے، ہر چیز کے مسئلوں سے نو ماہ گزر کے وہ ادھر تک پہنچتی ہیں جدھر سے پہلے دن ایک مرد نہا دھو کے جا چکا ہوتا ہے۔ ان کے لیے اس میں کیا فائدہ ہے؟
ٹھیک ہے ہماری ماؤں نے یہی کیا لیکن ان کے پاس کیا کوئی متبادل راستہ تھا؟ ’ماں‘ ایک ایسا لفظ ہے جو شاید تقدس سے بھی اوپر کا رتبہ اختیار کر چکا ہے لیکن اس کی قیمت کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عورت کو اتنی بڑی ذمے داری کے لیے تیار کرنا ہی اس کا مقصد ہو؟ معاشرہ شروع سے ہم مردوں کا رہا ہے، تاریخی طور پہ مالی ذمے داریاں بے شک مرد اٹھاتے رہیں ہیں لیکن مرد اگر اُن سارے جسمانی مرحلوں سے گزر کے اولاد پیدا کرتا جن سے عورت گزرتی ہے تو آج دنیا میں کتنے بچے ہوتے؟ یا پھر باپ کا درجہ ماں سے کئی سو گنا زیادہ ہوتا؟
خیر، اب تک میرے اوپر تنقید کے لیے کافی گراؤنڈ بن گیا ہے، بات لیکن وہیں کی وہیں ہے؟ ہم کیا سوچ کر بچے پیدا کر لیتے ہیں؟ بلکہ شاید یوں مناسب ہو گا کہ ہم سوچتے کیوں نہیں ہیں بچے پیدا کرنے سے پہلے؟
وہ جو گاڑی سے بچی باہر جھانک رہی تھی، وہ کبھی بوڑھی بھی ہو گی، تب اس کی آنکھوں میں شاید تجسس نہیں ہو گا، مایوسی یقیناً ہو گی ۔۔۔ کیا اس وقت کی معصومیت اور بڑھاپے کی مایوسی دونوں پہ اس بچی غریب کا اختیار کوئی تھا؟
یا پھر جیسے مجھے بچے اچھے لگتے ہیں، اس کے ماں باپ کو بھی شاید بس ’بچے پسند‘ ہوں گے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔