کراچی ٹریفک حادثات میں جان سے جانے والوں میں 57 فیصد موٹر سائیکل سوار: پولیس

پولیس کے مطابق زیادہ موٹرسائیکل سواروں کی اموات ڈمپر یا دیگر ہیوی گاڑیوں کے ٹکرانے سے واقع ہوئیں۔

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس کے مطابق ٹریفک حادثات میں جن افراد کی جان جاتی ہے، ان میں سے 57 فیصد موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں۔

پولیس کے مطابق رواں برس 15 دسمبر تک شہر میں 500 سے زائد روڈ حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں 525 اموات رپورٹ ہوئیں اور مرنے والے 57 فیصد موٹرسائیکل سوار تھے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ٹریفک پولیس کراچی احمد نواز چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ موٹرسائیکل سواروں کی اموات ڈمپر یا دیگر ہیوی گاڑیوں کے ٹکرانے سے واقع ہوئیں۔

ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز چیمہ کے مطابق: ’کراچی میں مرنے والے موٹر سائیکل سوار بائیں جانب سے ہیوی گاڑی کو کراس کرتے ہوئے یا ہیوی گاڑی کے انتہائی قریب سے گزرتے ہوئے حادثات کا شکار ہوئے۔‘

کراچی میں ٹریفک حادثات زیادہ کہاں ہوتے ہیں؟

احمد نواز چیمہ کے مطابق حادثات سے متعلق اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق حادثات کی اکثریت دو بڑی بندرگاہوں بشمول کراچی پورٹ اور قاسم پورٹ سے نکلنے والے ہیوی گاڑیوں کے راستوں سمیت شہر کے صنعتی زونز سائٹ، لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل زونز، نادرن بائی پاس اور حب روڈ پر زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔

بقول احمد نواز چیمہ: ’دونوں بندرگاہوں اور صنعتی علاقوں میں زیادہ تر ہیوی گاڑیاں گزرتی ہیں اور موٹرسائیکل سواروں کی بے احتیاطی کے باعث زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔‘

کراچی پورٹ سے کتنی ہیوی گاڑیاں نزدیکی راستوں پر آتی ہیں؟

کراچی پورٹ سے نیٹی جیٹی پُل کے درمیان واقع گھاس منڈی پر موجود ٹریفک پولیس چوکی کے انچارج اور جیکسن تھانے کے ہیڈ محرر سینگار تھیبو گذشتہ کئی سالوں سے اس روڈ پر ٹریفک کنٹرول کی نگرانی کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینگار تھیبو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کراچی پورٹ پر روزانہ چار جہاز لگتے (لنگر انداز ہوتے) ہیں اور ہر جہاز میں 3200 سے 3400 کنٹینر ہوتے ہیں۔ ہر ایک کنٹینر کو ایک ٹرک یا ٹرالر پر رکھ کر بھیجا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کراچی پورٹ سے روزانہ 12 سے 14 ہزار ٹرک، کنٹینر یا ٹرالر نکل کر اِس روڈ سے جاتے ہیں۔

’اتنی زیادہ ہیوی گاڑیوں کے درمیاں تیز رفتار موٹرسائیکل سوار حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم لائسنس کا پوچھتے ہیں تو بہانہ بنایا جاتا ہے کہ ابھی بنوایا نہیں یا گھر پر بھول آئے ہیں۔ اکثر نوجوان بالوں کا سٹائل خراب ہونے کے باعث یا گرمی کا بہانہ کرکے ہیلمٹ استعمال نہیں کرتے۔‘

ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز چیمہ بھی کہتے ہیں کہ ’ڈیٹا کے مطابق جان سے جانے والے اکثر موٹرسائیکل سواروں کا لائسنس نہیں ہوتا۔ وہ ہیلمنٹ کا ستعمال نہیں کرتے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے بیک ویو مرر کا بھی استعمال نہیں کرتے۔

’اس کے علاوہ موٹرسائیکل کی بیک لائٹ یا تو درست کام نہیں کرتی یا غائب ہوتی ہے۔ اس کے باعث جب بھی روڈ پر موٹرسائیکل کی اچانک بریک لگائی جاتی ہے تو پیچھے سے آنے والے گاڑی کے ڈرائیور کو پتہ نہیں چلتا اور اس طرح حادثہ ہو جاتا ہے۔‘

احمد نواز چیمہ کے مطابق کُل اموات میں سے 25 فیصد ایسے لوگ شامل تھے جو سڑک کراس کرتے ہوئے گاڑی کی ٹکر سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے مطابق زیادہ تر حادثات شام یا رات کے اواقات میں ہوتے ہیں۔

کراچی سے مختلف شہروں میں پیٹرول کی ترسیل کرنے والے پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او)  کے آئل ٹینکر کے ڈرائیور محمد ارشد 1997 سے آئل ٹینکر چلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہیوی گاڑی چلانا بہت مشکل ہے۔

بقول محمد ارشد: ’ہیوی گاڑی کا ڈرائیور اونچائی پر بیٹھتا ہے اور اگر اچانک سے کوئی موٹر سائیکل قریب سے کراس کرتا ہے تو ڈرائیور کو نظر نہیں آتا اور حادثہ ہوجاتا ہے۔

ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کے مطابق کراچی میں 65 لاکھ رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 42 لاکھ موٹر سائیکلز ہیں اور ان کے مطابق ہر سال شہر میں تین سے ساڑھے تین لاکھ گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان