سپریم کورٹ کے چار ججوں کی نئی تقرریوں کو روکنے کی درخواست

درخواست جو جعمے کو دائر کی گئی پر جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ اے ملک کے دستخط ہیں۔

سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ عدالت عظمی میں نئے ججوں کی تقرری اس وقت تک ملتوی کر دیں جب تک کہ 26ویں آئینی ترمیم کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔

درخواست جو جعمے کو دائر کی گئی پر جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ اے ملک کے دستخط ہیں۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں طے شدہ اجلاس ملتوی کرنے اور سپریم کورٹ کے آٹھ نئے ججوں کی تقرری ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

ججوں نے زور دیا کہ اس عمل کو اس وقت تک موخر کیا جائے جب تک کہ 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کی پٹیشن کے فیصلے یا کم از کم، اس معاملے پر فل کورٹ میں سماعت کرنے کی درخواستوں پر آئینی بنچ کے فیصلے تک روکا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلوں اور ان کی سنیارٹی کو عدالتی کارروائی کے ذریعے حل کرنے تک تقرریوں کو موخر کیا جانا چاہیے۔

ان کا موقف تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جوکہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کیا دیا گیا تھا، 10 فروری 2025 کو سپریم کورٹ میں آٹھ ججوں کی تقرری پر غور کے لیے ہونا تھا۔ ججوں نے لکھا، ’موجودہ (اور جاری) حالات اور کچھ حالیہ پیش رفت ہمیں آپ کو درخواست کرنے کے لیے لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کچھ کی طرف سے پہلے بھی فل کورٹ بلانے کی درخواست ریکارڈ پر لائی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ججوں نے کہا کہ معاملات کو آئینی بنچ کو بھجوا دیا گیا جہاں کافی تاخیر کے بعد پہلی باضابطہ سماعت ہوئی اور اب نئے ججوں کی شمولیت کے لیے اس اجلاس کو آئینی بنچ کی سماعت کی اگلی تاریخ سے پہلے حیرت انگیز طور پر عجلت میں طے کیا گیا۔

ججوں نے کہا کہ اس وقت عدلیہ پر عوامی اعتماد کا انحصار اس بات پر ہے کہ ترمیم کو مسترد کرنے والی درخواستوں کو کیسے نمٹا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرحلے پر نئے ججوں کی شمولیت سے، جو واضح طور پر ترمیم سے مستفید ہوئے ہیں، عوامی اعتماد پر بہت زیادہ فرق ڈالیں گے۔

ان کا اصرار تھا کہ اگر اجلاس اپنے مقررہ مقصد تک پہنچنے کے لیے آگے بڑھے گا تو جو مسائل پیدا ہوں گے، ان کو حسب ذیل بیان کیا جا سکتا ہے۔

’اگر آئینی بنچ ترمیم کے چیلنجوں کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے لیے فل کورٹ بلانے کی درخواستوں اور احکامات کو قبول کر لیتا ہے، تو لامحالہ یہ سوال اٹھے گا کہ اس مقصد کے لیے فل کورٹ میں کون شامل ہو گا۔ یہ اس لیے ہے کہ اگر اس وقت تک آٹھ نئے ججوں نے عہدہ سنبھال لیا تو یہ ایک نئی صورت حال پیدا کرے گا۔‘

چاروں ججوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں واحد قابل عمل حل اور آپشن یہی ہے کہ اجلاس ملتوی کیا جائے۔

انہوں نے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت تین مختلف ہائی کورٹس سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کے معاملے پر بھی بات کی۔

’ہم نے صدر کے اختیار کے تحت جاری ہونے والے تبادلے کے حکم کو دیکھا ہے جو اب آرٹیکل 200 کی شق (2) سے واضح نظر آتا ہے، جو واضح طور پر منتقلی کی مدت کے بارے میں بتاتا ہے کہ منتقلی مستقل نہیں ہو سکتی۔‘

خط کے مطابق نئے ججوں کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ حلف لینا لازمی تھا، حلف لیے بغیر ان کا جج ہونا ہی مشکوک ہوجاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان