مریخ میں برف کے اندر خلائی مخلوق موجود ہوسکتی ہے: سائنس دان

ایک نئی تحقیق کے مطابق مریخ کی سطح پر برف کے اندر ایسی خلائی مخلوق موجود ہو سکتی ہے، جسے خوردبین کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ناسا کے مارس ریکونینس آربیٹر سے لی گئی مریخ کے علاقے ڈاؤ ویلس کی ایک تصویر۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تصویر کے بیچ میں موجود سفید علاقہ گرد آلود برف ہے، جس کا ذکر حالیہ تحقیق میں کیا گیا ہے (ناسا/ جے پی ایل-کالٹیک/ یونیورسٹی آف ایریزونا)

ایک نئی تحقیق کے مطابق مریخ کی سطح پر برف کے اندر ایسی خلائی مخلوق موجود ہو سکتی ہے، جسے خوردبین کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔

مریخ کی سطح پر زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں زیادہ تر سطح پر ماورائے بنفشی شعاعیں پڑتی ہیں جو کسی بھی ایسے جاندار کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں جو وہاں زندہ رہنے کی کوشش کرے۔

لیکن ایک نئی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر برف کی تہہ کافی موٹی ہو تو وہ اس میں موجود کسی بھی جاندار کو ان شعاعوں سے بچا سکتی ہے۔

یہ زندگی ایسے مقام پر ہونی چاہیے جہاں یہ اتنی گہرائی میں ہو کہ الٹرا وائلٹ شعاعوں سے محفوظ رہ سکے لیکن یہ گہرائی اتنی ہو کہ اسے ضیائی تالیف (فوٹوسنتھیسس) کے لیے نظر آنے والی روشنی مل سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نئی تحقیق میں محققین نے ماڈل تیار کیا کہ کیا مریخ پر برف اور دھول کی موجودگی میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ زندگی کے لیے کوئی مناسب جگہ ہو۔

محققین کے علم میں آیا کہ اگر برف میں دھول کی مقدار زیادہ نہ ہو یعنی 0.01 سے 0.1 فیصد کے درمیان ہو تو پانچ سے 38 سینٹی میٹر کی گہرائی میں ایسی جگہ موجود ہو سکتی ہے جہاں زندگی برقرار رہ سکے۔ اگر برف زیادہ صاف ہو تو قابل رہائش مقام بڑا ہو جائے گا یعنی 2.15 سے 3.10 میٹر تک گہرا۔

برف کے اندر موجود دھول کبھی کبھار برف کو پگھلا بھی دے گی، جس سے اتنی مقدار میں مائع پانی ملے گا جو فوٹوسنتھیسس کے لیے ضروری ہو گا اور اس طرح زندگی کو زندہ رہنے میں مدد دے گا۔

محققین نے خبردار کیا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کا دعویٰ نہیں کرتی کہ برف والے علاقوں میں واقعی زندگی موجود ہے لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مریخ پر زندگی کی تلاش میں یہ علاقے اہم جگہ بننے چاہییں کیونکہ یہاں زندگی ملنے کے امکانات سب سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

ان نتائج پر مشتمل ’مریخ پر برف اور برف میں فوٹوسنتھیسس کی صلاحیت‘ کے عنوان سے مضمون نیچر کے جرنل ’کمیونیکیشنز ارتھ اینڈ انوائرمنٹ‘ میں شائع ہوا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق