مسلم وقف بورڈ  بی جے پی کے نشانے پر  

انڈیا کا وقف بورڈ مسلمانوں کا واحد مذہبی فلاحی ادارہ ہے، جو اس وقت سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

انڈین ریاست مدھیہ پردیش میں مسلم وقف بورڈ کی عمارت کے مرکزی دروازے کا منظر (ویب سائٹ مدھیہ پردیش وقف بورڈ)

انڈیا میں مسلمانوں کی 15 فیصد آبادی میں سے اس وقت ملکی پارلیمان میں پانچ فیصد، سپریم کورٹ کے 265 ججوں میں 16 اور انتظامیہ کے 11500 افسروں میں 250 سے بھی کم مسلمان افسران کی نمائندگی ہے، جو بیشتر سروے رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے 10 برس کے دور اقتدار میں محدود ہو گئی ہے۔ 

مسلم پرسنل لا کے تحت قائم ادارہ وقف بورڈ اب مسلمانوں کا واحد مذہبی فلاحی ادارہ ہے، جو اس وقت سے بڑی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، خصوصاً جب سے بی جے پی حکومت نے وقف ایکٹ میں ترامیم کے منصوبے پر سرعت سے کام شروع کر رکھا ہے۔ 

انڈین وقف ایکٹ 1995 کے تحت وقف بورڈ اوقاف اسلامیہ یا مذہبی املاک کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل کرتا ہے اور اس کا سرمایہ، رجسٹریشن اور سروے کا کام انجام دیتا ہے۔ 

وقف بورڈ کے پاس اس وقت 9.4 لاکھ ایکڑ زمین ہے، جس پر تقریبا نو لاکھ املاک بنی ہوئی ہیں اور ان کی قیمت 1.2 لاکھ کروڑ بتائی جاتی ہے۔ 

انڈیا میں وقف بورڈوں کی تعداد 30 ہے جو املاک یا دوسرے تنازعات حل کرنے کے مجاز ہیں۔ اس وقت وقف ٹریبونل میں تقریباً 21000 معاملات درج ہیں۔ 

بعض مسلم تنظیموں کی شکایت ہے کہ وقف ان معاملات کو سلجھانے میں غیر سنجیدگی سے کام لیتے رہے ہیں اور یہ معاملات برسوں تک ٹریبونل میں پڑے رہتے ہیں۔ وقف املاک کی آڈیٹنگ اور صحیح مد میں نہ خرچنے اور خردبرد کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں مگر وقف کے عہدے داروں نے عوام کی تشفی کے لیے کبھی ان کا سدباب نہیں کیا۔ 

بی جے پی اور ہندتوا سوچ رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ وقف ایک مذہب کے ماننے والوں کو خصوصی رعایت دیتا ہے، بورڑ کے پاس غیر رجسٹر شدہ ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس میں برصغیر کے بٹوارے کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والوں کی اراضی بھی شامل ہے، اس پر صرف مسلمانوں کا کنٹرول ہے اور جائیداد کے تنازعے عدالتوں کے بجائے اندرونی طور پر سلجھانے کی سعی ہوتی ہے۔ 

اسی تناطر میں گذشتہ برس بی جے پی نے  وقف سے متعلق ترامیمی بل پارلیمان میں پیش کیا۔ 

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے پارلیمان میں شور شرابہ کر کے اسے پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی کو سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کی حکومت کے پاس اس وقت دو تہائی اکثریت نہیں ہے لہذا اپوزیشن کے کہنے پر پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی بنائی گئی، جس کے 31 ارکان میں اپوزیشن کے 11 ارکان کو شامل کیا گیا تاکہ ووٹنگ کرنے کے وقت بی جے پی کا غلبہ برقرار رہے۔ 

گذشتہ برس اگست سے 36 مباحثوں کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ جگدمبکا پال نے اعلان کیا کہ کمیٹی کی سفارشات پر 25 ترامیم کی منظوری دے دی گئی ہے، جب کہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ انہیں کوئی بات، عذر یا مشورہ دینے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور بی جے پی نے اپنے اراکین کی ووٹنگ کر کے 500 سے زیادہ صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی، جسے پارلیمان کے اجلاس کے دوران پاس کر دیا جائے گا۔ 

کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک کے 25 وقف بورڈوں اور 15 ریاستوں کے نمائندوں کے بعد رپورٹ تشکیل دی، جس میں تقریباً 93 لاکھ ای میلز سے موصول عوام کی رائے بھی شامل کر دی گئی ہے۔ 

پہلی ترمیم اس املاک کے بارے میں ہے جو بقول حکومت استعمال میں نہیں مگر وقف بورڈ کے کنٹرول میں رکھی گئی ہیں۔ بعض مسلم علما کہتے ہیں کہ بی جے پی دراصل ہماری مذہبی املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

 پارلیمانی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ بغیر رجسٹریشن املاک کو وقف قانون لاگو ہونے سے پہلے رجسٹر کرنا لازمی ہو گا، جب یہ ترمیمی بل پاس ہو گا تو وقف بورڈ کو تمام املاک کی رجسٹریشن منظر عام پر لانا ہو گی اور چھ ماہ کے اندر اپنی ویب سائٹ پر اس کا پورا ریکارڈ ڈالنا ہو گا تاکہ اس کی شفافیت پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا جا سکے۔ 

اپوزیشن کے بعض ارکان نے آغا خانی اور بوہرا برادری کے لیے علیحدہ وقف بورڈ بنانے کی بی جے پی کی درخواست کو مسترد کر دیا۔  

ترمیم میں مسلمانوں کے اعتراض کے بعد اس بات کو رد کردیا گیا ہے کہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں تحقیقاتی ٹیم میں حکومت کی جانب سے ڈسٹرکٹ کلکٹر شامل رہے گا۔ اپوزیشن اراکین نے نکتہ اٹھایا کہ  تنازعے میں سرکاری اہلکار کا شامل رہنا اور غیر جانبدار کردار ادا کرنا متنازعہ بن جائے گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبر کی تقرری کی ترمیم منظور ہو گئی ہے جس میں اب دو اعلی ممبران میں ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم ہو گا۔ مسلم علما سمجھتے ہیں کہ اس سے مسلم ادارے کا تشخص ختم کرنے کا بی جے پی کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا ہے۔ 

اپوزیشن کے 11 ارکان نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کو مذاق قرار دے کر کہا کہ بی جے پی کے چیئر پرسن نے اپنی مرضی سے ترامیم لائیں اور سفارشات بھی دیں جبکہ انہیں بات کرنے سے روکا گیا۔ اراکین نے اس کے بارے میں پارلیمان کے سپیکر کو بھی نوٹس دے دیا ہے اور ترامیم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ 

ترنامول کانگریس کے رکن پارلیمان کلیان بینرجی نے کہا کہ کمیٹی نے ہمیں کوئی دستاویز تک نہیں دی۔ ’ہم نے کہا کہ ہم ایک ایک کلاز یا سیکشن پر بحث کے طلب گار ہیں، چیئرمین نے اس کو سرے سے مسترد کردیا۔ ووٹنگ کی اور خود ہی ووٹ ڈالے، چیئرمین پال نے پارلیمانی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے۔‘ 

اپوزیشن کے ہنگامہ کرنے پر انہیں کمیٹی سے اب برخواست کر دیا گیا ہے۔ 

وقف بورڈ کی میٹنگ میں حریت کے رہنما میر واعظ عمر فاروق بھی شامل ہوئے تھے لیکن انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا جس پر بی جے پی نے کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے میر واعظ کو بولنے سے روک دیا۔ میر واعظ اور کشمیر کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ کے دہلی میں ملاقات کے بعد وقف بورڈ کی بل کے خلاف منظم تحریک چلانے  کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’مودی حکومت کا مقصد وقف کو بچانا نہیں بلکہ وقف کو ختم کرکے مسلم املاک کو ہتھیانا ہے، ترامیم سے یہ حکومت ہمیں اپنے مذہبی جائیداد اور امور سے بے دخل کرنا چاہتی ہے، اور ہم پر ہندوتوا کو مسلط کرنا چاہتی ہے،ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور ان ترامیم کو رد کرتے ہیں۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ اور سابق وزیراعلی فاروق عبداللہ نے وقف ترامیم پر محتاط بیان دے کر خود کو پھر اپوزیشن اتحاد سے دور رکھا ہے اور اسے بی جے پی حکومت کی ذمہ داری قرار دیا ہے جبکہ پارٹی کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ مسلم علما سے مل کر اس کے خلاف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ 

وقف ترامیم بل آئندہ چند روز میں دہلی انتخابات سے پہلے پارلیمان میں پیش کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ بی جے پی اس کی روٹی سینک کر ہندو ووٹ حاصل کرے۔ البتہ دہلی میں اروند کیجروال کی آپ پارٹی کو ہرانا نہ صرف بی جے پی کے لیے بڑا چلینج ہے بلکہ کانگریس کے لیے بھی، جو اقلیتی ووٹ بٹورنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر