انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے انتظام کے لیے 1960 میں طے پانے والے تاریخی سندھ طاس معاہدے کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
چند روز قبل پاکستان کی قومی اسمبلی کی کارروائی میں وزیر برائے آبی وسائل جناب مصدق مسعود ملک نے انکشاف کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ دو سالوں سے سندھ طاس معاہدہ سے متعلق اہم ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور معلومات کا اشتراک رک گیا ہے اور اس بارے میں دونوں ملکوں کے درمیان دو سال سے کوئی اجلاس نہیں منعقد ہوا۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں یہ تشویش ناک جمود اس وقت آیا ہے جب انڈیا آبادی میں اضافے، زرعی مطالبات اور صاف توانائی کی ترقی کی ضرورت کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ میں ترمیم کا مطالبہ کر رہا ہے۔
مصدق ملک نے مزید کہا کہ انڈیا نے دریاؤں پر 13 نئے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں مگر ان کے بارے میں پاکستان سے کوئی معلومات شیئر نہیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا اصرار کر رہا ہے کہ پاکستان سندھ طاس منصوبے میں ترمیم اور نظرِ ثانی کے لیے بات چیت کرے۔
پاکستان سندھ طاس منصوبے میں کسی بھی ترمیم کی مخالفت کرتا ہے، اور اسے اپنی آبی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقسیم شدہ دریا
1947 میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو صورتِ حال یہ بنی کہ پنجاب کے سارے دریا انڈیا سے ہو کر پاکستان آتے تھے۔ اس سے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور بالآخر 1960 میں ایوب خان اور نہرو کے درمیان ورلڈ بینک کے زیرِ اہتمام سندھ طاس معاہدہ طے پایا جس کے تحت دریائے سندھ کے طاس کے دریاؤں کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔ تین مشرقی دریا (راوی، بیاس اور ستلج) انڈیا کو ملے جب کہ پاکستان کے حصے میں تین مغربی دریا (سندھ، جہلم اور چناب) آئے۔
پاکستان کو اپنے آبی وسائل کو از سرِ نو تشکیل دینے کے لیے انڈیا سمیت مختلف ملکوں سے گرانٹ ملی۔ پاکستان نے اس رقم سے بہت بڑے پیمانے پر بیراج، ہیڈورکس اور نہریں تعمیر کیں اور سندھ، جہلم اور چناب کا پانی راوی، بیاس اور ستلج سے سیراب ہونے والے نہری علاقوں میں لے گیا۔
یہ تقسیم اگرچہ بظاہر سیدھی سادی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں، خاص طور پر انڈیا میں قوم پرست بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد سندھ طاس منصوبہ نشانے پر آیا ہے۔ انڈیا کا استدلال ہے کہ یہ معاہدہ غیر مساوی ہے اور پاکستان کے حق میں ہے، کیوں کہ اس کے تحت پاکستان کو سندھ کے طاس کے آبی وسائل کے تقریباً 80 فیصد حصے تک کنٹرول مل گیا ہے اسی لیے وہ اس پر نظرِ ثانی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
پانی کی پریشانی
کئی عوامل نے سندھ طاس معاہدہ کے گرد حالیہ تناؤ میں اضافہ میں حصہ ڈالا ہے۔ مغربی دریاؤں پر انڈیا کی جانب سے کئی ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن پر پاکستان کو اعتراض ہے کہ یہ سندھ طاس منصوبے کی خلاف ورزی ہے۔
خاص طور پر پاکستان نے کشن گنگا، بگلیہار اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کے ڈیزائن کی خصوصیات پر اعتراضات اٹھائے ہیں، اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی کئی دفعات سے متصادم ہیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جون 2024 میں ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان نے ’کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹس کا معاملہ نیوٹرل ایکسپرٹ اور ثالثی کی عدالت کے سامنے اٹھایا ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ماہرین ان پراجیکٹس کی تفصیلات لیں گے، جو پاکستان کے قانونی کیس کو سہولت فراہم کرے گا۔ ہمارا کیس یہی ہے کہ دونوں پراجیکٹس سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔‘
یہ معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں پہنچا ہے جہاں طویل قانونی جنگ جاری ہے۔ پھر مودی جی جب اقتدار میں آئے تو تنازعات میں مزید شدت پیدا ہو گئی، خاص طور پر جب مودی نے 2019 میں مشہور نعرہ لگایا کہ ’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘
اس کے بعد انڈیا نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب اور ہریانہ میں زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے اپنے دریاؤں سے پانی موڑ دے گا۔ پاکستان نے اس اقدام کی سختی سے مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کے حصے کے پانی کو موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جارحیت سمجھا جائے گا۔
تاہم اب کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ دونوں نے آپس میں بات کرنا بھی چھوڑ دی ہے، جس سے مسئلہ پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خاص طور پر اس صورتِ حال میں کہ پاکستان کو خشک سالی اور پانی کی فراہمی کے عدم تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے۔
موسمیاتی تبدیلی
ایک اور پیچیدگی موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ ہے جو بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دریائے سندھ کا طاس موسمیاتی تغیر پذیری کا شکار ہے، اس کا تقریباً 25-30 فیصد پانی گلیشیئروں اور برف پگھلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، بےترتیب مون سون اور تیز رفتاری سے گلیشیئر پگھلنے سے دریاؤں کے بہاؤ کا پیٹرن بدل رہا ہے، اور دونوں ممالک کے لیے پانی کی قلت کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ان موسمیاتی چیلنجوں سے پہلے کے دور میں تیار کیا گیا تھا، ان ابھرتی ہوئی حقیقتوں سے نمٹنے کے لیے ایک فریم ورک کی کمی ہے، جس سے معاہدے پر مزید دباؤ پڑ رہا ہے اور اس کی طویل مدتی پائیداری کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات کے فوجی تصادم میں بڑھنے کا امکان ایک سنگین خطرہ ہے۔ سندھ طاس منصوبے میں مستقبل میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے تین سطحی فریم ورک متعین کیا تھا۔
- مستقل سندھ کمیشن: اس کمیشن میں دونوں ملکوں کی جانب سے ایک ایک کمشنر تعینات کیا گیا جو کمیشن معاہدے کے نفاذ سے متعلق سوالات اور خدشات کے ازالے کے لیے مواصلات اور معلومات کے تبادلے کے چینل کے طور پر کام کرتا ہے۔
- غیر جانبدار ماہر: ورلڈ بینک کی جانب سے مقرر کردہ ایک اعلیٰ قابلیت کا حامل انجینیئر جو تکنیکی نوعیت کے ’اختلافات‘ کو حل کر سکے۔
- ثالثی عدالت: ایک ایڈہاک ثالثی ٹریبونل ان تنازعات کے ازالے کے لیے جو پچھلے دو طریقہ کار کے ذریعے حل نہیں ہو سکیں۔
تاہم، یہ طریقہ کار بھی تنازعے کا باعث بنا ہے۔ انڈیا غیر جانبدار ماہر کے عمل کو ترجیح دیتا ہے، جب کہ پاکستان ثالثی عدالت کو ترجیح دیتا ہے، جس کے تحت پاکستان انڈیا کے منصوبوں سے سٹے آرڈر لے سکتا ہے۔
حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے مقرر کردہ ایک غیر جانبدار ماہر نے فیصلہ دیا کہ وہ کشن گنگا اور رتلے منصوبوں پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔ انڈیا کی جانب سے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے، کیوں کہ اس کے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ صرف غیر جانبدار ماہر ہی ان تکنیکی تنازعات کو حل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
تاہم پاکستان نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ فیصلہ جاری قانونی لڑائیوں اور معاہدے کے مستقبل کو کیسے متاثر کرے گا۔
ترمیم اور جائزے کے مطالبات
انڈیا نے باضابطہ طور پر پاکستان کو سندھ طاس معاہدہ کے جائزے اور ترمیم کی درخواست کرتے ہوئے ایک نوٹس جاری کیا ہے۔ اس نوٹس میں آبادیاتی تبدیلیوں، زرعی ضروریات اور صاف توانائی کی ترقی کو تیز کرنے کی ضرورت کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ انڈیا کا استدلال ہے کہ ان عصری چیلنجوں سے نمٹنے اور آبی وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے معاہدے کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر انڈیا ایسی ترامیم کا خواہاں ہے جو مغربی دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبے اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکے۔ تاہم انہیں اپنی آبی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے پاکستان نے کسی بھی ترمیم کی شدید مخالفت کا اظہار کیا ہے۔
آگے کا راستہ: تعاون یا تنازع؟
سندھ طاس معاہدہ، جو کبھی دو حریف ملکوں کے درمیان تعاون کی علامت تھا، اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، قانونی تنازعات، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور عدم اعتماد نے اس معاہدے کی حدود کو بےنقاب کیا ہے اور اس کے مستقبل کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں۔ معاہدے کو متعلقہ اور موثر بنانے کے لیے، انڈیا اور پاکستان کو سیاسی دشمنی پر اجتماعی بقا کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس کے لیے درج ذیل پر عزم کی ضرورت ہے۔
تعمیری مکالمے میں مشغول ہونا: دونوں ممالک کو ’آبی دہشت گردی‘ کے بیانیے سے آگے بڑھنے اور دریائے سندھ کے طاس کے سامنے آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بامعنی گفتگو میں مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔
تنازعے کے حل کے طریقہ کار کو مضبوط بنانا: سندھ طاس معاہدہ کے تنازعہ کے حل کے طریقہ کار کو ہموار کرنے اور اسے زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طویل قانونی لڑائیوں اور منصوبے کے نفاذ میں تاخیر کو روکا جا سکے۔
موسمیاتی لچک کے اقدامات کو شامل کرنا: ڈیٹا شیئرنگ، آبی وسائل کے مشترکہ انتظام اور موافقت کی حکمت عملیوں سمیت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے معاہدے کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
باہمی آبی وسائل کے انتظام کو فروغ دینا: دونوں ممالک کو مشترکہ تحقیق، ٹیکنالوجی شیئرنگ اور صلاحیت سازی سمیت باہمی آبی وسائل کے انتظام کے مواقع تلاش کرنے چاہییں۔
پاکستان کا موقف | انڈیا کا موقف |
سندھ طاس معاہدہ ایک منصفانہ معاہدہ ہے جو پاکستان کے پانی کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ | سندھ طاس معاہدہ غیر متناسب طور پر پاکستان کے حق میں ہے، اسے زیادہ تر آبی وسائل تک رسائی دیتا ہے۔ |
انڈیا کے پن بجلی کے منصوبے معاہدے کی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پاکستان کی آبی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ | انڈیا کو اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مغربی دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبوں کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ |
سندھ طاس معاہدہ میں کوئی بھی ترمیم پاکستان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ | موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافے سمیت عصری چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ |
ثالثی عدالت سندھ طاس معاہدہ سے متعلق تنازعات کے ازالے کا مناسب طریقہ کار ہے۔ | غیر جانبدار ماہر کا عمل تکنیکی تنازعات کو حل کرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ |