پاکستان کی پہچان، سندھڑی آموں کی ابتدا 1940 میں چنائی کے چار آموں کے تحفے سے ہوئی۔
سندھڑی آم کے بارے میں سندھ کے ضلع میر پور خاص کی مقامی ہندو میگھواڑ برادری میں مشہور ہے کہ کسی عورت سے پوچھا گیا کہ سندھڑی آم کیسا ہوتا ہے، تو اس کا کہنا تھا کہ ’بھگوان میٹھا ہوتا ہے۔ لیکن سندھڑی آم اس سے بھی زیادہ میٹھا ہے۔‘
مقامی روایت کے مطابق، آم کے باغوں میں بور لگنے کے بعد ، کسی عورت کو باغ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ روایت کے مطابق آم کے باغ میں عورت آ گئی تو بور جھڑ جاتا ہے اس لیے آم کے پیڑ پر بور لگنے سے پھل اترنے تک باغوں میں عورتوں کے آنے جانے پر پابندی ہوتی ہے اور آم کو درختوں سے اتارنے سے لے کر ڈبوں میں بند کرنے تک کسی بھی مرحلے میں عورتیں شامل نہیں ہوتیں۔
آج سندھڑی آم اپنے مخصوص ذائقے، منفرد خوشبو اور مٹھاس کی وجہ سے ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں یہ نہ صرف سندھ کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان ہیں۔
سندھڑی آموں کی ڈرافٹنگ یا پیوندکاری کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈو محمد خان کے پروفیسر اسماعیل کمبھر بتاتے ہیں کہ سندھ میں فصلوں پر تحقیق کا آغاز ’سندھ فارم‘ کے تحت 1904 میں ہو چکا تھا لیکن زراعت کے شعبے میں بڑی تبدیلی سکھر بیراج کے بننے سے آئی ۔
1923میں سکھر بیراج کی تعمیر شروع ہوئی جس نے خطے کے بڑے نہری نظام کی بنیاد ڈالی۔ نہروں کے اس جال نے پانی کی رسائی ان علاقوں تک بھی کر دی جہاں پہلے کاسشتکاری نہیں ہو رہی تھی۔
مزید اچھی فصلوں کے حصول سے زرعی کالج اور تحقیق کا میدان کھلا۔ سندھ کا سب سے پہلا ایگریکلچر کالج، کنگ جارج پنجم انسٹیٹوٹ آف ایگریکلچر 40-1939 میں قائم ہوا۔
اس سے آگے کی کہانی نور محمد بلوچ، ڈائریکٹر جنرل سندھ ایگریکلچر ریسرچ، کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ 1940 کی ایگریکلچر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پیداوار بڑھانے کے لیے ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے مختلف پھلوں اور اناجوں کے بیج اور قلمیں منگائی جائیں، باقاعدہ ایک ایگریکچر کمیٹی بنائی گئی۔
سابق وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد دین محمد جونیجو اس ایگریکلچر کمیٹی کے رکن تھے۔
آم کی قلمیں منگوانے کے لیے آج کے چنائی اور ماضی کے مدراس ہارٹیکلچر نے سندھ ہارٹیکلچر کو چار آموں کی قلمیں تحفے میں بھیجیں تاکہ اسے مقامی آموں کے ساتھ ملا کر نئے قلمی آم پیدا کیےجائیں۔
چنائی سے بھیجے جانے والے آم کا نام ’سندری‘ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چنائی سے آئی ان چار قلموں میں سے دو محمد خان جونیجو کے دادا دین محمد جونیجو کو دی گئیں اور باقی دو ڈاکٹر صمد کاچھیلو کو دی گئیں تاکہ تجرباتی طور پر سندری آم کو مقامی آم سے ملا کر نئی آموں کی قسم بنائی جا سکے۔
لگائی گئی تجرباتی قلموں کا تجربہ کامیاب ہوا، اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور آج سندھڑی آم پورے پاکستان کی پسندیدہ قسم نہیں بلکہ پاکستان کی پہچان بھی ہیں۔ سندھڑی آموں کی پیداوار پاکستان کے کل آموں کی پیداوار کا 62.7 فیصد ہے۔
دین محمد جونیجو کے کام کو آگے ان کے بیٹے محمد خان جونیجو نے 1952 میں آگے بڑھایا ۔ میرپور خاص میں سندھڑی کے مقام پر جونیجو فارم ڈیڑھ سو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں تقریباً 12 سو سندھڑی آموں کے پیڑ ہیں، جن میں سے کچھ درخت ساٹھ اور ستر سال کے ہیں اور کچھ چالیس سال پہلے لگائے گئےتھے۔
سندھڑی آموں کے باغوں کا خیال میر پور خاص کی مقامی میگھواڑ برادری رکھتی ہے۔
سندھڑی آموں کے بیوپاری چا لونومل میگھواڑ باپ دادا کے زمانے سے سندھڑی آموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ہی اچھی فصل آتی ہے۔
سندھڑی آموں کی تین اقسام مارکیٹ میں آتی ہیں۔ ایک سفید سندھڑی ہے، ایک کالی سندھڑی اور ایک قسم زیادہ مشہور نہیں ہے۔ سب سے اچھی قسم سفید سندھڑی ہی سمجھی جاتی ہے۔
سندھڑی آم کی خاصیت یہ ہے کہ ذائقے میں اچھا ہے اور پکنے کے بعد 20 دن تک یہ خراب نہیں ہوتا یعنی لمبے عرصے تک اسے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
سندھڑی آموں کے دوسرے آڑھتی جرم داس ابھوجو کا کہنا ہے کہ سندھڑی آم دوسرے آموں کے مقابلے میں زیادہ میٹھا ہوتا ہے اور اس کا چھلکا پتلا ہوتا ہے اور گودا بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے آم جلدی گل جاتے ہیں لیکن یہ نہیں۔ جرم داس اسے بھگوان سے زیادہ میٹھا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے کھانے سے سرور آجاتا ہے۔
ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ آم کو بور لگنے کے بعد سب سے زیادہ کہر اور بارشوں سے خطرہ ہوتا ہے۔
جنوری میں آم کے درخت پر بور آجاتا ہے ۔اور مئی تک اس پر ’ماوا‘ یعنی کچی کیری آجا تی ہے اور جون کے پہلے ہفتے تک پہلی فصل تیار ہوجاتی ہے۔
زراعت کے شعبے میں خواتین کسی نہ کسی مرحلے میں نظر آتی ہیں، لیکن آموں کے شعبے میں خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا ۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقامی طور پر روایت چلی آرہی ہے کہ بور لگنے کے بعد خواتین باغوں اور باغیچوں میں نہیں آتیں ۔ ہم نے جب ان کی بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آج کے دور میں بھی یہ روایت کیوں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے، اور میں صبح شام اور کبھی کبھی پورا پورا دن لگنا پڑتا ہے۔
شبیر کمبھر نے بتایا کہ پانی کی کمی میر پور خاص اور خاص کر سندھڑی آموں کو نقصان پہنچا رہی ہے، جس سے ذائقے پر فرق آتا ہے۔
اس بات کی تائید مقامی زمیندار ناصر حسین کھانیو بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی، اچھی کھاد کا نہ ملنا اور زمین کی نمکیات سے سندھڑی آموں کے وزن اور مٹھاس میں کمی آئی ہے۔ پہلے آم ایک کلو سے ڈیڑھ کلو کا ہوتا تھا۔ ان علاقوں میں جہاں کھاد اچھی ہے اور پانی زیادہ ہے وہاں آم پہلے جیسا ہی ہے۔
سندھڑی آموں کے باغ کو دیکھنے کے بعد کہاوت صادق آتی ہے کہ ’دادا لگائے پوتا کھائے۔‘ دین محمد جونیجو نے سندھڑی آم کی کاشت کی اور ان کی تیسری نسل فیص پا رہی ہے۔