پشاور بی آر ٹی (ریپڈ بس ٹرانزٹ) کی سڑکوں کے لیے چین سے تقریباً 350 ایسی سائیکلیں منگوائی گئی ہیں جن کے بارے کہا جارہا ہے کہ یہ بنیادی طور پر خواتین کے لیے ڈیزائن کردہ ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بی آر ٹی منصوبے کی بحالی و انتظام سنبھالنے والے ادارے ٹرانس پشاور کے کمیونیکیشن سپیشلسٹ نعمان منظور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے ادارے نے جو سائیکلیں منگوائی ہیں یہ خصوصی طور پر خواتین کے لیے تیار کی جاتی ہیں کیونکہ مردوں کی سائیکلوں کے برعکس ان میں ہینڈل اور نشست کے درمیان کسی قسم کی ٹیوب نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے نہ صرف اس پر بیٹھنے اور اترنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ خواتین کو لباس کے حوالے سے بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں پشاور یونیورسٹی اور حیات آباد میں کسی ایک مقام پر سائیکل سٹینڈز بنائے جائیں گے، جس کے بعد رفتہ رفتہ مزید بی آر ٹی سٹیشنوں پر بھی یہ سہولت مہیا کی جائے گی۔
نعمان منظور کے مطابق: ’یہ سائیکلیں جنہیں ’زو بائیسیکل‘ کا نام دیا گیا ہے، صرف بی آر ٹی شاہراہوں پر چلانے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ ان سائیکلوں کے ذریعے پشاور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو بھی بی آر ٹی شاہراہ تک پہچنے میں مدد ملے گی۔ ہر وہ شخص جو یہ سہولت حاصل کرنے کا متمنی ہوگا، اسے ایک کارڈ جاری کیا جائے گا، جو سائیکل سٹینڈ کے قریب لگی مشین پر رکھنے سے کرایہ وصولی اور سائیکل استعمال کرنے کے حوالے سے ہدایات جاری کرےگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ بی آر ٹی شاہراہوں پر چلنے والی خصوصی سائیکلیں ابھی سے منگوانے کی وجہ انہیں ٹیکنالوجی کی مختلف مشقوں اور معائنوں سے گزارنا ہے، جس میں تین مہینے سے زائد لگ سکتے ہیں۔
بی آر ٹی رُوٹس کے لیے ساڑھے تین سو خصوصی سائیکلیں تو منگوا لی گئی ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ایک جانب تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سکول طالبات کے لیے عبایا لازمی قرار دینے جیسے فیصلے کر رہی ہے اور مردان کی طالبات میں شٹل کاک برقعے تقسیم کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف بی آر ٹی شاہراہوں پر ایسی سائیکلیں متعارف کروا کر آزاد خیالی و روشن فکری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
چند مہینے پہلے پشاور میں منعقد ہونے والی خواتین کی ایک سائیکل ریلی ناکام ہونے کے بعد خواتین نے الزام لگایا تھا کہ صوبائی حکومت کے نمائندے اور انتظامیہ مذہبی انتہا پسندوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ہیں۔
اس ریلی کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ خواتین نے پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا تھا تاکہ حکومت سے باضابطہ طور پر اجازت نامہ لیا جاسکے، تاہم اس کیس کی ایک اپیل کنندہ ایمان جمیل نے بتایا کہ حکومت اس پر آمادہ نظر نہیں آرہی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’یہ کیس ہم نے مارچ میں دائر کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ وکیل نے موقف ظاہر کیا ہے کہ حکومت اجازت نامہ نہیں دے گی کیونکہ حکومت کے مطابق اس صوبے میں خواتین کا سائیکل چلانا کلچر کے خلاف ہے۔‘
ایمان کے مطابق: ’جواب میں ہم نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خواتین کے کالج اور یونیورسٹیوں میں جانے پر بھی پابندی لگا دی جائے کیونکہ یہاں تو اس کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔‘
خیبر پختونخوا کے ایک نجی کالج میں پولیٹیکل سائنس پڑھانے والی ایک لیکچرر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں نظریے کی بجائے ہر اُس شخص کو ووٹ ملا جس کا ووٹ بینک زیادہ تھا۔ ’اس میں مذہبی جماعتوں سے لے کر آزاد امیدواروں تک شامل تھے۔ شاید یہ بھی ایک سبب ہے کہ آج اس پارٹی میں نااہلی کے ساتھ ساتھ قدامت پسندی بھی بہت زیادہ ہے۔‘
قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی نسرین خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ پشاور میں خواتین کے سائیکل چلانے کے حوالے سے ان کے کیا تاثرات ہیں؟ بتایا کہ ’صرف جینڈر فرینڈلی سائیکل منگوانے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک خود حکومت خواتین کے لیے ایسے موافق حالات پیدا نہیں کرتی، جن میں انہیں پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔‘
پاکستان میں کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بیک وقت لبرل ازم اور قدامت پسندی دونوں طرف مائل ہونے کی وجہ سے فیصلوں میں عدم استحکام کا شکار ہے، جس کے باعث ان کو اپوزیشن کی جانب سے شدید طنز اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔