ایک افریقی خاتون کے طور پر جو اپنی صنف کے حوالے سے غیر روایتی رویہ رکھتی ہے، میرا تعلق ایک ایسے گروہ سے ہے جسے ہمیشہ اظہار کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں تاریخی طور پر خواتین بہت طاقتور رہی ہیں اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔ مرد اپنی بیویوں سے اجازت لیے بغیر ہتھیار نہیں اٹھا سکتے تھے نہ ہی جنگ پر جا سکتے تھے۔ خواتین کو روحانی طور پر مردوں سے برتر تصور کیا جاتا تھا اور زیادہ تر بادشاہ اہم فیصلے کرنے سے قبل اپنے حلقہ احباب میں موجود خواتین سے مشورہ لیتے تھے۔ مگر اب یہ سکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔
سیاہ فام افراد کا مستقبل بدلنے کے لیے تعلیم بنیادی ضرورت ہے کیونکہ آپ کو جاننا ہوگا کہ آپ کون ہیں اور اسی سے آپ جان سکیں گے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ بطور بالغ میرے پاس اتنے وسائل اور سکھانے والے موجود تھے جنہوں نے دوبارہ علم حاصل کرنے میں میری مدد کی اور آخر کار میں نے اپنے شناخت کو پہچان لیا۔ میں نے ٹھکرائے جانے کا درد سہا ہے۔ خاموش کرائے جانے اور دھوکہ کھانے کا درد محسوس کیا ہے۔ ان احساسات نے مجھے میری پہچان کروائی ہے اور میں نے اپنا سچ تلاش کر لیا ہے، اسی وجہ سے میں اس کے شئیر کرنے کے قابل ہو سکی ہوں۔
تاریخ کی کتابیں زیادہ تر سفید فام نظریے سے لکھی گئی ہیں۔ بچے بڑے ہو جاتے ہیں لیکن انہیں نسلی عصبیت اور غلامی سے پہلے کی سیاہ فاموں کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ کاش میرے اساتذہ نے مجھے یہ بتایا ہوتا کہ تاریخ میں سب سے امیر ترین آدمی ایک سیاہ فام بادشاہ منسا موسا تھا۔ ہم ایک بہت خوبصورت تاریخ رکھتے ہیں۔ ہم صنعتوں کی بنیاد رکھنے والے ہیں، ہم نے معیشتیں تخلیق کیں۔ میں لندن میوزیم میں آرٹ کے ایسے کئی نمونے دیکھ کر حیران رہ گئی جو نوآبادیاتی دور سے پہلے کی جنوبی افریقہ کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں برطانیہ سے لوٹا اور اور ہماری شناخت کو مٹا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی افریقہ ایک محب وطن ملک ہے۔ مثال کے طور ریڈیو پر بجائی جانے والی موسیقی کا 90 فیصد مقامی ہونا ضروری ہے۔ میں یہ جان کر حیران رہ گئی کہ فارم 696 کے باعث دو سال پہلے تک بھی لندن کے حکام مداحوں کی قومیت کی بنیاد پر آرٹسٹوں پر اپنے فن پاروں کی نمائش کرنے پر پابندی لگا سکتے تھے۔ اب جبکہ نوٹنگ ہل کارنیول سیاہ فام ثقافت کا میلہ تصور کیا جاتا ہے، پھر بھی یہ وہاں ہونے والے جرائم کی شرح پر منحصر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلط اطلاعات کی بدولت ابھی تک سیاہ فام ثقافت کو منفی انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔
ایک ایسی سیاہ فام خاتون کے طور پر جو غیر روایتی صنفی ترجیحات کی حامل ہے، میں بھی اپنے جیسے بہت سے انسانوں کی طرح لاعلمی کا بار بار سامنا کرنے سے تھک چکی ہوں۔ خود کو جاننے اور قبول کرنے کے بعد میں کوشش کرتی ہوں کہ میں خود کو سمجھنے اور اپنی شناخت پر فخر کرنے پر ہی توانائیاں خرچ کروں۔ اس نے نہ صرف میری نفسیات پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں بلکہ میری تخلیقی صلاحتیوں کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے اور میں یہی کچھ ’فونانی‘ (ٹویا کے نئے گانے) میں بتا رہی ہوں۔ اپنے آپ پر فخر کریں۔ ایفرو ریو ایک ایسی آواز ہے جو میری پیچیدہ لیکن خوبصورت شناخت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں جنوبی افریقی اور برطانوی گیراج میں بجائے جانے والی موسیقی دونوں موجود ہیں۔ یہ موسیقی کی زبان میں میری کہانی ہے۔
سیاہ فام تاریخ کا مہینہ ایک موقع ہے جس سے ہم سب کو اس بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔ ہمیں غیر معذرت خواہانہ انداز میں ، بغیر رکے سیاہ فام ثقافت کے خلاف تعصب کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ اس دوڑ میں ہم سب ساتھ ہیں۔
تویا ڈیلیزے مختلف ایوارڈ یافتہ آرٹسٹ اور یونیسیف کی سفیر ہیں۔ ان کا نیا گانا ’فونانی‘ حال ہی میں ریلیز ہوا ہے۔
© The Independent