امریکہ کے کامرس ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 28 چینی اداروں اور کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے جا رہا ہے جو امریکہ کے مطابق، چین کے خطے سنکیانگ میں اویغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور ان پر مظالم میں ملوث ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی کامرس سیکرٹری ویلبر روس نے کہا کہ امریکہ ’چین میں نسلی اقلیتوں پر ظالمانہ جبر کو برداشت نہیں کرے گا۔‘
امریکی فیڈرل رجسٹر میں بدھ کو چھپنے والی اَپ ڈیٹ کے مطابق بلیک لسٹ کی گئی کمپنیوں میں ویڈیو نگرانی کرنے والی کمپنی ہِک ویژن اور مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والی کمپنیاں میگوی ٹیکنالوجی اور سینس ٹائم شامل ہیں۔
امریکہ کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان خاص طور پر تجارتی پالیسی اور سنکیانگ میں بیجنگ کے اقدامات کو لے کرکشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔
دنیا کی دو طاقت ور معیشتوں کے درمیان ٹریڈ وار جاری ہے جس کے دوران دونوں جانب سے اربوں ڈالر مالیت کی دوطرفہ تجارت میں بھاری ٹیرف لگائے گئے ہیں۔
پیر کو وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جمعرات کو بحال ہوں گے اور بیجنگ کے اعلیٰ تجارت کے ایلچی لیو ہی کی امریکی وزیر خزانہ سٹیون منوچن اور تجارت کے نمائندہ رابرٹ لائیتھائیزر سے ملاقات متوقع ہے۔
اس دوران امریکہ نے سنکیانگ میں بیجنگ کی پالیسیوں کو لے کر اس کے خلاف بیان بازی میں اضافہ کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چین نے خطے میں قائم ری ایجوکیشن کیمپس میں دس لاکھ تک اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو قید کر رکھا ہے۔ واشنگٹن ان اقدامات کو نازی جرمی کے دور میں لاکھوں یہودیوں کی قید سے تشبیہ دیتا ہے۔
گذشتہ ماہ ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اویغور مسلمانوں کی مشکلات پر آگاہی پھیلانے کے مقصد سے ایک تقریب بھی منعقد کی جس میں امریکہ کے دوسرے اعلیٰ ترین سفارت کار جون سلیون نے ’چین کی جبر کی خوف ناک مہم‘ کی تنقید کی۔
انہوں نے کہا: ’سنکیانگ میں چینی حکومت مسلمانوں کو نماز پڑھنے اور قران پڑھنے سے روک رہی ہے اور اس نے کئی مساجد کو یا تو تباہ کر دیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے۔‘
جون سلیون نے مزید کہا: ’اپنے شہریوں کو ان کی مذہبی آزادی کا حق استعمال کرنے سے روکنے کی یہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی ایک منظم مہم ہے۔‘
چین ان ری ایجوکیشن کیمپسوں کی موجودگی کی تردید کرتا آیا ہے، لیکن حال ہی میں اس نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ ’پیشہ ورانہ تعلیم دینے والے سکول‘ ہیں، جو دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہیں۔ جین نے اپنے’اندرونی معاملات‘ میں بیرونی مداخلت کے خلاف بھی بیان دیے ہیں۔
بلیک لسٹ کیے جانے والے 28 اداروں میں سنکیانگ میں واقع 18 پبلک سکیورٹی بیورو، ایک پویس کالج اور آٹھ کمپنیاں شامل ہیں۔
فیڈرل رجسٹر کی اَپ ڈیٹ میں کہا گیا: ’چین میں اویغور، کازک اور دوسری مسلمان اقلیتوں پر جبر کی مہم کو نافذ کرنے، بڑے پیمانے پر قید رکھنے اور نگرانی کرنے کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے میں ملوث ہونے پر ان اداروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔‘
میگوی، جس کے پیچھے ای کامرس جائنٹ علی بابا ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ وہ امریکہ کے اس فیصلے کی ’شدید‘ مذمت کرتی ہے، ’جس کے پیچھے کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ کمپنی کی ٹیکنالوجی کا ’معاشرے پر مثبت اثر‘ ہوتا ہے۔
اس سے قبل امریکہ نے ٹیک جائنٹ ہواوے اور دوسری چینی کمپنیوں کو امریکی کانٹریکٹس حاصل کرنے سے روکا تھا۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ بیجنگ ہواوے کے بنائے گئے سسٹم کو ٹیلی کام کےآلات میں نصب خفیہ ’بیک ڈورز‘ کے ذریعے جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔