جس طرح سری لنکا کی طفلان مکتب ٹیم نے پاکستان کے سپر سٹارز کو بھرے ہوئے قذافی سٹیڈیم میں آؤٹ کلاس کیا اس پر اکثر تماشائی کہہ رہے تھے کہ اس سے تو بہتر تھا انٹرنیشنل کرکٹ واپس ہی نہ آتی، کم ازکم عرب امارات میں ہم جیت تو جاتے تھے۔
تیسرا ٹی ٹوینٹی بظاہر تو ایک رسمی سا میچ تھا کیونکہ سیریز تو پہلے ہی سری لنکا جیت چکا تھا اور پاکستان کے پاس محض آنسو پوچھنے کے لیے ایک جیت کا موقع تھا تاکہ اپنے پہلے کلین سوئپ سے بچ سکے۔ ایک یہی تمنا مسٹر آل مصباح الحق کی تھی کہ کم ازکم ایک جیت تو جھولی میں ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ سیریز ریکارڈز کی زینت بن جائے۔
دونوں ٹیمیں میدان میں اتریں تو ٹیم سلیکشن نے ہی بتا دیا کہ ایک حریف شان بے نیازی سے چل رہا ہے تو دوسرا گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ سے اکھڑ اکھڑ کر قدم اٹھارہا ہے۔ سری لنکا نے اپنے نئے کھلاڑی آزمائے اور پاکستان نے چلے ہوئے کارتوس فخر زمان اور وہاب ریاض جواب خانہ پری کے لیے تو ہیں لیکن فتح گر نہیں۔
سری لنکا نے آج کچھ نرمی برتی اور 147 رنز کا مجموعہ شاید یہ سوچ کر پاکستان کے حوالے کیا کہ چلو آج یہ ہی کر کے دکھادو ۔ 20 اوورز میں 150 پاکستان شاید سینکڑوں مرتبہ بنا چکا ہے لیکن آج ایسا لگا کہ شیخ اپنی اپنی دیکھ والا معاملہ ہے یعنی اپنے اپنے رنز بناؤ اور اگلی سیریز کا ٹکٹ کٹاؤ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بابر اعظم اور حارث سہیل نے یہی سوچ کر خود تو اچھے رنز بنالیے لیکن ٹیم کو ایک مشکل مطلوبہ رن ریٹ دے گئے حارث سہیل کی نصف سینچری ٹیم کے کسی بھی کام نہ آسکی۔ آخری پانچ اوورز میں 54 رنز ایک سلو وکٹ پر یقیناً مشکل کام تھا اور بابر اعظم تو ویسے بھی اپنے لیے کھیلنے کی شہرت رکھتے ہیں سو انہوں نے سوچ سمجھ کر کھیلا ۔
پاکستان اپنی پوری کوشش کے باوجود 134 رنز ہی بنا سکا جس نے بیٹسمینوں کی خامیوں کو اجاگر کردیا کہ اہلیت کا معیار کتنا گر گیا ہے۔ سری لنکا نے ناتجربہ لیکن پر عزم نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ ایک سادہ سی حکمت عملی ترتیب دے کر پاکستانی سپرسٹارز کو سمجھادیا کہ کرکٹ کا کھیل ہر دن نیا ہوتا ہے۔
ایک غیر معروف سپنر حشرنگا نے صرف ورائٹی کے بدولت پاکستانی بلے بازوں کو باندھ کر رکھ دیا لیکن سپر سٹار شاداب خان پوری سیریز میں اوورپچ اور تیز بالیں کرتے رہے جس کا انجام ان کو سب سے مہنگے بالر کی صورت میں ملا۔
پاکستان چاہتا تو سری لنکا کے فرنانڈو کی طرح حیدر علی اور عمیر یوسف جیسے نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دے سکتا تھا جنہوں نے گذشتہ دنوں تیز اور دلکش اننگز کھیلیں لیکن پاکستان کے کوچ مصباح سے آپ کبھی ایسی توقع نہ رکھیں کہ وہ کسی نوجوان کو موقع دیں گے۔
فرنانڈو کا ڈیبیو میچ میں بلا کا اعتماد ان کے تابناک مستقبل کی نوید دے رہا ہے۔ سیریز تو ختم ہوگئ لیکن ایسا لگتا ہے سرفراز کی کپتانی بھی ختم ہے اور چند ہفتوں میں شروع ہونے والے آسٹریلیا کے دورہ کے لیے بابر اعظم کی کپتانی کا اعلان کرنے میں اب بورڈ کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوگا۔
اگر ہم جیسے کسی صحافی نے سوال کر بھی دیا تو شہنشاہ معظم وسیم خان اور ان کے مشیر بااختیار وسیم اکرم فوراً بیان داغ دیں گے سرفراز کی کارکردگی کیا ہے جو کپتان رکھا جائے ویسے ذرائع تو یہ کہتے ہیں کہ بابر اعظم کو انگلش سکھائی جارہی ہے تاکہ آسٹریلیا میں ترجمان کی ضرورت نہ پڑے۔ تو سمجھ لیجئے کہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا ہے اسی لیے سرفراز تمام میچوں میں بجھے بجھے نظر آئے۔
پاکستان ہار گیا دکھ تو ہے لیکن لمحہ مسرت یہ ہی کہ سری لنکا نے ہزار ہا مخالفت کے باوجود پاکستان کا دورہ کیا اور شائقین کو ورلڈ کلاس کرکٹ کا لطف فراہم کیا۔
شکریہ، سری لنکا، شکریہ ۔