اسلام میں جہاں بیٹیوں کو رحمت اور بیٹوں کو نعمت قرار دیا ہے تو وہاں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حقوق دیے ہیں۔ تعلیم خوراک روزگار شادی بیاہ میں ان کو برابری کا حق دیا ہے لیکن بدقسمتی سے قبائلی اضلاع میں جہاں بیٹیوں کو تمام تر سہولیات فراہم کر دی جاتی ہے تو وہاں جائیداد میں ان کو اپنے حصے سے محروم رکھا جاتا ہے۔
بڑے پڑھے لکھے لوگوں کے علاوہ علمائے دین بھی اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے انکاری ہیں۔ اگر کوئی بیٹی اپنی جائیداد میں حصہ مانگتی ہے تو اس کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتی کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے۔ ان سخت مخالفتوں سے بچنے کے لیے بیٹیاں اپنی جائیداد کو قربان کر دیتی ہیں کیونکہ وہ ان رشتوں کی قربانی نہیں دے سکتیں۔
اگر ان کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا جس کا حق انہیں اسلام نے بھی دیا ہے اور یہ ان کا قانونی حق ہے تو شاید وہ اس سے اپنی زندگی بہتر بنا سکتیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہ ہوتیں۔ اگر وہ حصہ دیا جاتا تو وہ اس زمین کو بیچ کر یا اس پر فصل اگا کر اپنے لیے عزت کا ذریعہ بنا سکتی ہیں لیکن قبائلی اضلاع میں لوگ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود 21 ویں صدی میں بھی بیٹیوں کو جائیداد کے حصہ دینے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑا سنگین جرم اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ جہاں بیٹیوں کو اچھی تعلیم دی جاتی ہے، اچھی تربیت کی جاتی ہے ان کے اچھی جگہ رشتہ کرایا جاتا ہے تو وہاں ان کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
وہ بیٹیاں جو کہ خوشی خوشی اپنا حصہ لینے سے انکار کرتیں ہیں وہ تو بجا لیکن جن کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنے حصے کا مطالبہ کرتی ہیں تو ان کو بہت سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پر ہمیشہ کے لیے اپنے گھر کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان کو اپنے مرے ہوئے بھائی اور ماں باپ کی شکل تک نہیں دیکھنے دی جاتی۔ اپنا حصہ مانگنا کوئی جرم کوئی گناہ تو نہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جائیداد میں حصہ جو ہے یہ عورتوں کا اسلامی اور قانونی حق ہے جس کو تسلیم کرنے کے لیے بہت پڑھے لکھے لوگ اور علما بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ اس بات کو بہت ہی غلط اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس بات کو ان بیٹیوں کی بغاوت قرار دیتے ہیں جو جائیداد میں اپنا حصہ مانگتی ہیں۔
اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن یہی ایک مسئلہ ہے کہ ہم اسلامی قانون کی پامالی کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ہزار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہی عورتیں دربدر کی ٹھوکریں کھاتی ہیں، اپنی جائیداد بیچ کر وہ اپنے لیے عزت کا روزگار بھی حاصل کر سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ان عورتوں کو اپنا حق نہیں دیا جاتا۔ قبائلی جہاں بیٹیوں کو عزت کی علامت قرار دیا جاتا ہے ان کو اپنی دستار اپنی عزت کا نام دیا جاتا ہے تو وہاں ان کو ان بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو اچھے اچھے شرفا بھی ہضم کرنے سے کتراتے ہیں۔ کیا جائیداد میں حصہ مانگنا کوئی جرم ہے؟ کیا اپنا حصہ مانگنا قانونی یا اسلامی گناہ ہے جس کی سزا بیٹیوں کو دی جاتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر قبائلی بیٹی کے ذہن میں گونجتے ہیں لیکن وہ زبان تک نہیں لا سکتی ہیں۔