پاکستان کے نویں جماعت کے طالب علم عمر خان نے روس میں ہونے والے سنوکر ورلڈ کپ میں اپنے ذاتی خرچ پر نہ صرف حصہ لیا بلکہ تیسری پوزیشن بھی حاصل کی۔
انھیں اس کامیابی پر پاکستانی حکومت سے تو کچھ نہیں ملا مگر ایک برطانوی شہری اور سنوکر اکیڈمی کے مالک نے انھیں تین ماہ کے لیے برطانیہ میں سپانسر شپ دی ہے۔
وہ اکیلے نہیں بلکہ عالمی مقابلے ہوں یا ملکی سطح پر ہونے والے ٹورنامنٹ، ان میں حصہ لینے والے تقریباً تمام سنوکر کھلاڑی اپنی جیب سے ہی شوق پورا کرتے ہیں۔
دنیا میں پاکستان کا نام اونچا کرنے والے یہ کھلاڑی اپنی حکومت کی پذیرائی سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے ہر شہر اور گلی محلوں میں کھیلے جانے والے اس کھیل کو نہ کسی صوبائی سپورٹس بورڈ نے اب تک رجسٹرکر کے سرکاری کھیل کا درجہ دیا نہ ہی کوئی فنڈ جاری کیا جا رہا ہے۔
اس حکومتی رویے پر نہ صرف کھلاڑی نالاں ہیں بلکہ کلب مالکان بھی پریشان ہیں کیونکہ انہیں سرکاری طور پر تسلیم نہ کیے جانے پر مقامی پولیس کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سنوکرکھلاڑیوں کی کارکردگی اور مسائل
پاکستان کے کھلاڑی سنوکر میں عالمی سطح پر کئی بار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ سنوکر فیڈریشن کے مطابق سب سے پہلے محمد یوسف نے 1994 میں ورلڈ چیمپیئن شپ کا ٹائٹل جیتا اور 1998 میں ایشیئن چیمپیئن شپ کے فاتح قرار پائے۔
ان کے بعد محمد آصف نے 2012 میں سنوکر ورلڈ چیمپیئن شپ جیت کر ملک کا نام روشن کیا جبکہ 2014 میں حمزہ اکبر نے ورلڈ چیمپیئن شپ کا ٹائٹل پاکستان کے نام کیا۔
2018 میں انڈر18 ورلڈ چیمپیئن نسیم اختر قرار پائے، انہوں نے حکومتی مدد کے بغیر یہ عالمی مقابلے جیت کر اپنا ٹیلنٹ تسلیم کرایا۔
اگست 2019 میں روس میں ہونے والے ورلڈ چیمپیئن شپ مقابلوں میں کانسی کا تمغہ لینے والے 16 سالہ عمر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا وہ اپنے ذاتی خرچ پر ان مقابلوں میں شرکت کے لیے روس گئے اور اس دورے پر ان کے اڑھائی لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ ساتھی کھلاڑی حمزہ الیاس کے پاس پیسے نہ ہونے پر انہوں نے اپنے والدین سے درخواست کر کے ایک لاکھ روپے حمزہ کے لیے خرچ کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمر نے بتایا ان کے کھیل سے متاثر ہوکر ایک برطانوی سنوکر کلب کے مالک نے انہیں تین ماہ لندن میں سپانسر شپ دی تاکہ اوہ اپنے کھیل کو مزید نکھار سکیں۔
نوجوان کھلاڑی نے کہا پاکستان میں ’سرکاری مشیروں اور افسروں کو ہر قسم کی سہولیات عوامی ٹیکسوں سے دی جاتی ہیں جبکہ سنوکر کے ٹیلنٹٹ کھلاڑیوں کی کوئی امداد نہیں کی جارہی، جس سے بہت سا ٹیلنٹ عالمی سطح پر جانے سے صرف اس لیے محروم رہ جاتا ہے کہ ان کے پاس بیرون ملک جانے کے پیسے نہیں ہوتے۔‘
سنوکر کے کھلاڑیوں سے امتیازی سلوک کیوں؟
پنجاب سنوکر ایسوسی ایشن کے نائب صدر ایم بی غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا صوبے میں سنوکر کے تین ہزار سے زائد کلب ہیں جن میں لاکھوں کھلاڑی پیسے ادا کر کے کھیلتے ہیں۔
ایسوسی ایشن میں صرف اس کلب کو رکنیت دی جاتی ہے جو پانچ ٹیبلز رکھتی ہو۔ انہوں نے کہا ملکی سطح پر سنوکر فیڈریشن تو موجود ہے لیکن وہ برائے نام ہے، انہیں حکومت پہلے تھوڑا بہت فنڈ دیتی تھی لیکن گذشتہ ڈیڑھ سال سے فیڈریشن کو بھی فنڈ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا پاکستان سپورٹس بورڈ اور پنجاب سپورٹس بورڈ سمیت کسی صوبائی سپورٹس بورڈ نے سنوکر کو بطور ان ڈور گیم رجسٹر کر کے فنڈنگ کا کوئی نظام مرتب نہیں کیا، جتنے بھی سنوکر کے کھلاڑی عالمی مقابلوں یا ملکی ٹورنامنٹس میں حصہ لیتے ہیں وہ اپنے خرچ پر یہ سب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا سنوکر پاکستان میں واحد ان ڈور گیم ہے جو گلی محلوں کی سطح پر بھی کھیلی جاتی ہے۔ ’کرکٹ کے مقابلے میں سنوکر پاکستان میں زیادہ کھیلی جاتی ہے لیکن حکومتی توجہ سے محروم ہے۔‘
’فیڈریشن اور صوبائی ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے کئی بار سپورٹس بورڈ حکام سے ملاقاتیں کیں اور سنوکر کو بطور ان ڈور کھیل رجسٹر کر کے سالانہ فنڈز کے اجرا کی درخواست کی لیکن صرف تسلیاں اور یقین دہانیاں ہی کرائی جا رہی ہیں۔‘
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان پنجاب سپورٹس بورڈ عبدالرؤف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا یہ بات درست ہے کہ سنوکر ابھی تک بطور ان ڈور گیم بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں لیکن اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے کہ کس طرح سے نچلی سطح تک کھلاڑیوں کو حکومتی سرپرستی فراہم کی جا سکتی ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ بیرون ملک سنوکر مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی مالی امداد کی کیا پالیسی ہے؟ جس پر انہوں نے کہا جو سنوکر کھلاڑی پاکستان یا صوبائی سپورٹس بورڈ کو دعوت نامے کے ساتھ درخواست دیتے ہیں ان کی پالیسی کے مطابق امداد کی جاتی ہے لیکن اس کی چھان بین ضروری ہوتی ہے کیونکہ کئی کھلاڑی درخواست کے ذریعے بیرون ملک مقابلوں کے دعوت نامے منگوا کر حکومتی فنڈز حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو میرٹ پر مقابلے میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوتے ایسی ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
’لہذا سنوکر فیڈریشن اور صوبائی ایسوسی ایشنز کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنا ضابطہ طے کریں کہ ملکی سطح پر مقابلوں میں جیتنے والے کھلاڑیوں کو بیرون ملک مقابلوں میں بھجوانے کی فہرستیں تیار کر کے قبل از وقت جمع کرائیں تو ان کو فنڈ جاری ہوسکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا سپورٹس بورڈ ڈویژن اور ضلعی سطح پر درخواست ملنے پر سنوکر مقابلوں کے اہتمام میں بھی کلبوں کی مدد کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔