مولانا صاحب سے جب جون میں ان کی اقامت گاہ پر ملاقات ہوئی اس وقت میں نے مولانا صاحب کے اسلام آباد مارچ کی سنجیدگی کو محسوس کیا۔ الیکشن کا، عدلیہ کا، خارجہ پالیسی کا، نصاب کا سب کا ذکر ہوا۔
جس طرح ہندی فلم ’گینگ آف واسع پور‘ میں فضل (نوازا لدین صدیقی) ماں کو کہتا ہے، ’باپ کا، دادا کا، بھائی کا، سب کا بدلہ لے گا تیرا پھجل!‘ اسی طرح مولانا صاحب بھی اب تاجروں کا، اپوزیشن کا، مہنگائی کا سب کا بدلہ لینے کے لیے میدان میں اترنے والے ہیں۔ لیکن اس ملک کا ایک مسئلہ ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن کامیابی کے لیے بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ گویا
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
مولانا صاحب سے سب نے ملاقاتیں کیں اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا مولانا صاحب کو اشارہ مل چکا ہے، لیکن مولانا صاحب بھی سمندر کی گہرائی جتنا سینہ رکھتے ہیں، مجال ہے بھنک پڑنے دی ہو کہ بات ہوئی ہے یا نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں دراڑیں پڑی ہیں کہ مولانا کا ساتھ دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کتنا ساتھ دیا جائے۔
یہاں تک کہ آزادی مارچ سے قبل وفاقی وزرا شیخ رشید اور اعجاز شاہ کہتے رہے کہ مولانا کو منا لیا جائے گا اور وہ نہیں آئیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر ہے کہ حکومت تو منانے سے رہی اور نہ اپوزیشن یہ کام کر رہی تھی۔ چونکہ خود تحریک انصاف ماضی میں امپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کرتی رہی، بعد میں معلوم ہوا کہ سرجری کر کے وہ انگلی ہی کاٹ دی گئی، شاید اس لیے وہ تذبذب کا شکار نظر آ رہی ہے۔
لیکن تحریک انصاف کو پورا یقین ہے کہ اس بار پورا امپائر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں گلی گلی یہی سر گوشیاں ہو رہی ہیں کہ کیا مولانا خود سے آ رہے ہیں یا۔۔۔
پھر خود کلامی کےانداز میں کہتے ہیں، ’لگتا تو نہیں کیونکہ مولانا صاحب اتنے زیرک ہیں بلا وجہ کہیں گرتے بھی نہیں۔‘
یہی حالت اپوزیشن کی بھی ہے۔ کچھ تو کہتے ہیں اگر مولانا کا دھرنا نا کام ہوا تو عمران خان مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ تو کیا اسٹیبلشمنٹ وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہے؟
مولانا مارچ کیں گے یا دھرنا دیں گے کیا مولانا عین وقت پر کہیں اور نکل جائیں گے؟
اس وقت ملک کی حالت عامر خان کی فلم ’پیپلی لائیو‘ جیسی ہو گئی ہے جس میں نتھا نامی کاشت کار مہنگائی سے تنگ آ کر خودکشی کا فیصلہ کرتا ہے اور حکومت اس کو منانے کی کوششیں کر کے کہتی ہے کہ نتھا خودکشی نہیں کرے گا جبکہ اپوزیشن نتھا کے گھر جا کر کہتی ہے نتھا سے بات ہو گئی ہے، نتھا خود کشی کرے گا۔
اس صورت حال میں پورا گاؤں ایک سرکس بن جاتا ہے۔ یہی حالت اس وقت ملک کی ہے۔ مولانا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اسلام آباد آئیں گے، لیکن کچھ لوگ اسے خود کشی قرار دے رہے ہیں اور کچھ کہہ رہے ہیں، ’ایسا ہو نہیں سکتا، مولانا کو ضرور اشارہ ملا ہے!‘