ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں یورپی اقوام کی آمد کے بعد سے دنیا کا ماحولیاتی نظام ہی تبدیل ہو گیا تھا۔
یونیورسٹی کالج لندن کے سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 1492 میں کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں ساڑھے پانچ کروڑ مقامی لوگ ہلاک ہو گئے جو کل آبادی کا 90 فیصد بنتا ہے۔ ان کی بڑی تعداد ان بیماریوں کا نشانہ بنی جو آبادکار اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔
اس کے بعد کے برسوں میں جنگ، غلامی، مقامی معاشرے کے مکمل انہدام کی وجہ سے دونوں براعظم مقامی لوگوں سے تقریباً مکمل طور پر خالی ہو گئے۔
اس بےمثال تباہی کی وجہ سے ساڑھے پانچ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کا زیرکاشت رقبہ بنجر ہو گیا۔
اس بنجر رقبے پر اتنی تیزی سے جنگل اگنا شروع ہو گئے کہ انھوں نے فضا سے بڑے پیمانے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچنا شروع کر دی جس کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ ساری دنیا کا درجۂ حرارت کم ہو گیا۔
تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر مارک میسلن نے بتایا: ’اس دوران قابلِ ذکر ٹھنڈ پڑنا شروع ہوئی جسے ’چھوٹا برفانی دور‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں کچھ عمل دخل قدرتی عوامل کا بھی تھا لیکن بڑی وجہ نسل کشی کے باعث ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی ہے۔‘
اس چھوٹے برفانی دور میں یورپ میں درجۂ حرارت تیزی سے گرے، اور انگلستان کے ٹیمز سمیت بیشتر دریا منجمد ہو گئے۔
پروفیسر میسلن کے مطابق امریکہ کی آبائی آبادی کے اس قتلِ عام سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کا سراغ انٹارکٹیکا سے ملا۔
اس سرد براعظم میں موجود برف کی تہوں سے اس زمانے میں فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کا اندازہ ہوا۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ انسانی آبادی میں یکایک کمی کے علاوہ براعظم امریکہ میں پولن اور چارکول کی مقدار میں کمی بھی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
پروفیسر ایڈ ہاکنگز نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’صنعتی انقلاب سے قبل بھی انسانی سرگرمی ماحول پر اثرانداز ہوتی تھی۔‘
انسانوں نے صنعتی انقلاب کے بعد معدنی ایندھن جلا کر فضا میں بڑے پیمانے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ بھیجنا شروع کر دی جس سے آج دنیا کا درجۂ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس تحقیق سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ اگر آج بھی درخت اگائے جائیں تو ماحولیاتی تپش کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔