شہزادہ ولیم دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے شاید ہمیشہ ایک سٹائل آئیکون ہوں، نوجوان ان کے لباس کو فالو کرتے ہوں لیکن پاکستان میں ان کے کپڑے بس اتنے ہی نوٹ کیے جاتے ہیں جتنے غور سے ہم کسی دوسرے گورے کو اپنے سامنے زندہ سلامت دیکھ کر گھوری مار سکتے ہیں۔
پاکستان آمد کے بعد ان کے لباس پر ایک نظر ڈالنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ جہاں کیٹ مڈلٹن کے تمام ملبوسات کی دھومیں پورے انٹرنیٹ پر پھیلی ہوئی ہیں وہیں (شیروانی کے علاوہ) شہزادے صاحب کو خاص لفٹ نہیں کروائی جا رہی۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ دنیا بھر میں فیشن کا لفظ آتے ہی اسےخواتین کا میدان سمجھا جاتا ہے، مرد بے چاروں کے پاس لے دے کے چار رنگ کی پتلون قمیصیں اور کالے جوتے ہی کل کائنات سمجھے جاتے ہیں۔
اصل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر صرف پتلون کی بات کریں تو اس میں سات آٹھ قسمیں باآسانی گنوائی جا سکتی ہیں۔ پھر ان میں کپڑے کا فرق، فیشن کے حساب سے فٹنگ اور فنشنگ کے لامحدود کھاتے موجود ہیں۔ انہی اقسام میں ایک پینٹ CHINO کہلاتی ہے۔ چینو کی تاریخ شاریخ پہ لمبی بات کی بجائے بس اتنا کافی ہے کہ یہ بنیادی طور پر فوجی یونیفارم کا حصہ تھی اور سپین سے جنگوں کے بعد جب امریکی فوجی جب 1898 کے بعد واپس آئے تو یہ کپڑا اور اس کا زیادہ پائیدار ہونا عام لوگوں کو بھی پسند آ گیا۔ اس کے بعد گوروں میں آرام دہ سوتی چینوز کا رواج پڑ گیا۔
شہزادہ ولیم ڈریسنگ سینس رکھنے والے انسان ہیں۔ عام طور پہ کہیں کا بھی شاہی خاندان ہو اسے روائتی کپڑوں میں رہنا پسند ہوتا ہے۔ وہ لوگ جدید فیشن یا عوامی کپڑے پہننا پسند نہیں کرتے۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود ملکہ برطانیہ یا پرنس چارلس کی لی جا سکتی ہے۔ شہزادی ڈیانا شاہی خاندان کے ساتھ جن بہت سے مسئلوں میں پھنسی رہیں، ان میں سے ایک ان کے ملبوسات کا روائتی نہ ہونا تھا۔ انہیں جدید فیشن اور عوامی انداز زیادہ پسند تھا۔ یہی چیز ان کے دونوں بیٹوں میں بھی آئی۔
شہزادہ ولیم اگر شاہی تقریبات میں ہوں یا بہت زیادہ فارمل میٹنگز ہو، تب وہ روایتی لیکن جدید فٹنگ کے سوٹ پہننا پسند کرتے ہیں جیسے وزیر اعظم سے ملاقات پر انہوں نے پہنا ہوا تھا یا آج بادشاہی مسجد جاتے ہوئے انہوں نے پہنا، ورنہ عام طور پہ بزنس کیژول ان کی پسندیدہ چوائس ہوتا ہے۔ تو یہ چینوز اور ساتھ میں کسی بھی رنگ کا کوٹ عام طور پہ ان کا پسندیدہ لباس ہے۔ قمیصوں میں وہ کاٹن لینن کی شرٹس پہنے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایسا کپڑا ہے جسے پہننا اور اسے نبھا جانا مردوں میں نسبتا مشکل سمجھا جاتا ہے۔ ایک تو بعض اوقات اس میں سے اندر جسم جھلک سکتا ہے اور اگر آپ ذرا سے بھی زیادہ وزن کے ہیں تو وہی جسم چھلک بھی سکتا ہے۔ دوسرا اس پر شکنیں جلدی آ جاتی ہیں اور اس حساب سے اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے کہ سامنے زیادہ شکنیں نہ آئیں۔
پاکستان کے دورے میں جہاں شہزادہ ولیم کیژول کپڑوں میں نظر آئے وہاں قمیص ان کی وہی کاٹن لینن کی ہی پائی گئی۔ اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک اور کیلاش خواتین کے ساتھ تصویروں میں دونوں جگہ انہوں نے وہی پہن رکھی تھی۔ گمان یہ ہے کہ وہ دونوں قمیصیں ریڈی میڈ تھیں۔ گمان اس وجہ سے کہ شہزادہ ولیم ورزشی جسم کے آدمی ہیں اور ایسے بندوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گردن کا سائز باقی شرٹ سائز کے حساب سے نہیں ہوتا۔
گردن 16.5 کی ہو گی اور شرٹ کی فٹنگ آپ کو 15.5 کی فٹ بیٹھ رہی ہوتی ہے۔ تو ان دونوں بٹن ڈاون شرٹس میں آپ کو شہزادہ صاحب کے کالر تھوڑے سے مڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ عین اسی وقت ہوتا ہے جب باقی قمیص ٹھیک ہو اور کالر سائز چھوٹا ہو، کالر کھنچتا ہے اور ہلکا سا احتجاج دکھاتے ہوئے مڑ جاتا ہے۔ پھر کاٹن لینن میں کالر ویسے بھی نرم بکرم والا ہوتا ہے۔ متناسب جسامت پر اچھی فٹنگ کے کپڑے پہننے میں اتنی قربانی بہرحال دی جا سکتی ہے۔
باقی جہاں تک شہزادے کی مشہور زمانہ شیروانی کا تعلق ہے تو اسے ہرگز اگنور نہیں کیا جا سکتا۔ اس پہ کافی بات میڈیا میں ہو چکی۔ ایک بات نہیں ہوئی یا شاید میں نہیں دیکھ پایا۔ وہ یہ کہ شہزادے نے اسے کیری کیسے کیا۔ مطلب شیروانی پہننا الگ بات ہے اس لباس کو سنبھالنا الگ بات ہے اور پہن کے رکشے میں سوار ہو جانا شدید مشکل معاملہ ہے۔ ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی یہی لباس پہنے سائیکل رکشے میں بیٹھے تھے اور پھر جو مغلظات انہوں نے اس سواری کو اور اسے چلانے والے کے لیے استعمال کیں، وہ کچھ غیر انسانی سا رویہ تھا، اس پہ فقیر بچپن میں ہنسا بھی تھا، اب وہ سب کچھ لکھنا انسان اور غربت کی توہین لگتا ہے، وقت وقت کی بات ہے۔ تو شہزادہ ولیم شیروانی کو جس باوقار طریقے سے نبھاتے ہوئے پائے گئے وہ اچھا لگا، ورنہ ہماری شادیوں پہ اچھے بھلے دولہے شیروانی پہن کے چغد لگ رہے ہوتے ہیں۔
ایک چیز اور جو فارمل کپڑوں میں خاص طور پہ دیکھی جاتی ہے وہ بیلٹ اور جوتوں کا ہم رنگ ہونا ہے۔ پرنس جب چترال گئے تو وہ نسبتا آرام دہ کپڑوں میں تھے اس لیے انہوں نے اس اصول کو بھی پراں مار دیا۔ سویڈ جوتوں کے ساتھ اتنی رعایت لی جا سکتی ہے لیکن شاہی قسم کے دورے پر بہرحال یہ تھوڑا زیادہ کیژول تھا۔
گورے عام طور پہ ہاتھ میں شادی کی باریک سی انگوٹھی پہنے ہوتے ہیں، شہزادے صاحب کے ہاتھوں میں وہ بھی نہیں دکھائی دی۔ ان کے بھائی ہیری نے شادی پر پلاٹینیم کی باریک سی انگوٹھی پہنی، ابا پرنس چارلس نے شہزادی ڈیانا سے شادی کرتے ہوئے نہیں پہنی لیکن کمیلا پارکر سے بیاہے تو اب ہر وقت انہوں نے بھی ویڈنگ رنگ پہنی ہوتی ہے۔ ولیم تاحال اس قید سے آزاد دکھائی دیتے ہیں، آگے کی خدا جانے۔
کل ملا کےموجودہ حالات میں اس دورے کا پاکستان کو یہ فائدہ ہو گا کہ سیاح حضرات کا تھوڑا جھاکا کھلے گا اور انہیں پاکستان محفوظ دکھائی دے گا۔ ویسے پرنس ولیم کا یہ دورہ ماحولیات کے حوالے سے تھا۔ جس دن ہم لباس سے نکل کر ماحول پر گفتگو کے قابل ہو گئے اوس دن عید مبارک ہوسی اوس دن فیر ملاں گے۔