-
1/31
(تصاویر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
-
2/31
پیرس کے لوور میوزیم میں لیونارڈو ڈا ونچی کی ’مونا لیزا‘ (تقریباً 1503)
اس پینٹنگ کی عالمی شہرت کی وجہ اس میں دکھائی گئی خاتون کی پُرسکون مسکراہٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فلورنس کے ایک کپڑوں کے تاجر کی اہلیہ لیزا گیرارڈینی ہیں۔ اس پینٹنگ کا چھوٹا سائز یعنی77x53 سینٹی میٹر، اب بھی میوزیم میں آنے والے اُن لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو سکتا ہے جو اس کو قریب سے دیکھنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، تاہم یہ سب سے پہلی اطالوی پورٹریٹ ہے، جس میں دکھائی گئی شخصیت کو اتنا قریب سے فوکس کیا گیا ہے۔
آر ایم این- گرینڈ پالائس (لوور میوزیم)
-
3/31
دی ہیگ میں یوہانس ورمیر کی ’گرل وِد آ پرل ایئرنگ‘
اس پینٹنگ میں موجود خاتون جو ادھ کھلے ہونٹوں سے آپ کو دیکھ رہی ہے، اسے دیکھ کر آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر یہ کیا کہنے والی ہیں۔ ایک نامعلوم لڑکی کی یہ پینٹنگ تقریباً اصل زندگی ہی لگتی ہے۔ اداکارہ سکارلٹ جوہینسن نے اپنی 2003 کی فلم میں اسے ہمشہ کے لیے امر کردیا۔
ڈچ پینٹر ورمیر کا انتقال شدید غربت میں ہوا۔ وہ سال میں دو یا تین ہی پینٹنگز بناتے تھے کیونکہ وہ کافی سست روی سے کام کرتے تھے۔ دنیا ان کے کام کے بارے میں بالکل بھول چکی تھی اور پھر ان کی پینٹنگز 19ویں صدی میں دوبارہ دریافت ہوئیں اور لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ کتنے بڑے فنکار تھے۔
(پبلک ڈومین)
-
4/31
لیورپول کی واکر آرٹ گیلری میں پیٹر ڈوئگ کی ’بلوٹر ‘
پیٹر ڈوئگ کی پیٹنگز میں کچھ پرسکون اور جادوئی بات ہے۔ یہ پینٹنگ ان کے بھائی کی ہے جس میں وہ ایک منجمد تالاب پر کھڑے ہیں اور اپنے عکس کو دیکھ رہے ہیں۔ پیٹر کے کام میں پانی کی عکاسی بہت عام ہے۔ ان کی ’وائٹ کنُو‘ (1991) اور ’ایکو لیک‘ (2000) میں بھی ایسا دیکھا جاسکتا ہے جیسے یہ ’کسی دوسری دنیا کا دروازہ ہو۔‘
نیشل میوزیمز لیورپول کلیکشن، کاپی رائٹ پیٹر ڈوئگ (بشکریہ مائیکل ورنر گیلری، نیو یارک اور لندن)
-
5/31
فلورنس کی اوفیزی گیلری میں سینڈرو بوٹاچیلی کی ’دی برتھ آف وینس‘ (1486-1485)
یہ پینٹنگ فلورنس کی اوفیزی گیلری کا اہم ترین شہ پارہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں خواتین کی خوبصورتی کا جشن دکھائی دیتا ہے۔ اس میں اپنے لمبے لہراتے بالوں کے ساتھ وینس (خوبصورتی اور محبت کی رومی دیوی) ایک بڑی سیپی پر کھڑی ہے جبکہ ایک لڑکی اسے پھولوں سے بنا چغہ دے رہی ہے۔
(پبلک ڈومین)
-
6/31
ویٹی کن سٹی کے سِسٹین چیپل میں مائیکل اینجلو کی بنائی گئی چھت (1508)
بائبل میں پیدائش کی کتاب سے لیا گیا سحر انگیز مناظر کا یہ تسلسل ویٹی کن کے ایک چیپل کی چھت پر بنا ہوا ہے۔ اسے بنانے کے لیے پوپ جولیس 11 نے 1508 میں مائیکل اینجلو کی خدمات حاصل کی تھیں۔ میکل اینجلو نے اتنی اونچائی پر پینٹ کرنے کے لیے اپنا تختہ خود بنایا تھا۔
(پبلک ڈومین)
-
7/31
ویانا میں بیلویڈئیر گیلری میں گوستاو کلمٹ کی ’دا کس‘ (1908-1907)
کلمٹ کی اس آئل پینٹنگ سے زیادہ کچھ بھی رومانوی نہیں ہو سکتا، جس میں دو چاہنے والے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں۔
(بیلویڈئیر)
-
8/31
پیرس میں مارموتن مونے میں رکھی کلود مونے کی ’امپریشن، سن رائز‘ (1872)
مونے کی بنائی ہوئی اس پینٹنگ میں کھو جانا بہت آسان ہے، جس میں لے ہاورے پورٹ پر ایک صبح کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جہاں چڑھتے ہوئے سورج کی کرنیں چھوٹی کشتیوں پر پڑ رہی ہیں۔ جب یہ پینٹنگ پہلی بار پیرس کے ایک شو میں 1874 میں متعارف کروائی گئی تھی تو نامکمل لگنے کی بنا پر اس پر تنقید کی گئی تھی۔
(پبلک ڈومین)
-
9/31
لندن کے برٹش میوزیم میں ہوکوسائی کی ’دی گریٹ ویو‘ (1832-1829)
اس فن پارے میں دکھائی گئی لہر میں کچھ تو خطرناک ہے جو وہ جاپان کے کناگاوا صوبے کے سمندر میں تین کشتیوں کو نگلنے لگی ہے۔ یہ ووڈ بلاک پرنٹ جاپانی آرٹسٹ ہوکو سائی کی سیریز ماؤنٹ فوجی کے 36 مناظر کا ایک حصہ ہے۔ یہ دنیا میں جاپان کا سب سے مشہور فن پارہ ہے۔
(پبلک ڈومین)
-
10/31
نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں ونسنٹ وین گو کی ’دا سٹاری نائٹ‘ (1889)
ونسنٹ وین گوف نے یہ پینٹنگ اُس وقت بنائی جب وہ دماغی بیماری کے باعث اپنا کان کاٹنے کے بعد فرانس میں سینٹ پال اسائلم میں داخل تھے۔ یہ وہ منظر تھا جو انہیں ان کے کمرے کی کھڑکی سے رات کو نظر آتا تھا۔
(میوزیم آف ماڈرن آرٹ)
-
11/31
ایمسٹرڈیم میں ریمبراں کی ’دی نائٹ واچ‘ (1642)
ڈچ مصور ریمبراں کی اس پینٹنگ میں بہت تحریک نظر آتی ہے ۔ انہوں نےخود کو بھی اس پینٹنگ میں چھپا کر پینٹ کر دیا، جس میں کیپٹن بیننگ کاک اور ان کی عوامی ملیشیا کے 17 گارڈز شامل ہیں۔ روشنی اور سائے کا استعمال کرکے ریمبراں نے اس کے مرکزی کرداروں پر روشنی ڈال دی جن میں مرغی اٹھائے ایک خاتون بھی ہے۔
(پبلک ڈومین)
-
12/31
پیرس کے لوور میوزیم میں تھیوڈور جیریکولٹ کی ’دی رافٹ آف دی میڈوسا‘ (1819-1818)
یہ پینٹنگ آپ کو اپنے ساتھ ہی ایک بد قسمت سفر پر لے چلتی ہے۔ 27 سال کی عمر میں جیریکولٹ نے یہ پینٹنگ 1816 کے ایک اصل واقعے سے متاثر ہو کر بنائی جس میں ایک فرانسیسی فریگیٹ کے ساتھ حادثہ پیش آیا، جس میں 150 میں سے صرف دس لوگ بچ پائے۔
(پبلک ڈومین)
-
13/31
لندن میں ٹیٹ بریٹن میں ٹریسی ایمن کی ’آئی کُڈ فیل یو‘ (2014)
برطانوی آرٹسٹ ٹریسی ایمن اپنی آرٹ انسٹالیشن ’مائی بیڈ‘ (1998) کے لیے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کی تخلیقات خواتین کے جسم پر فوکس کرتی ہیں۔ ’آئی کُڈ فیل یو‘ بھی کاغذ پر کی گئی ان کی چھ تخلیقات میں سے ایک ہے۔
(ٹریسی ایمن)
-
14/31
نیو جرسی میں پرنسٹن یونیورسٹی آرٹ میوزیم میں پال سیزاں کی ماؤنٹ سینٹ ویکٹوئر (تقریباً 1868)
پال سیزاں نے اپنے آبائی علاقے کی منظرکشی جنوبی فرانس میں پہاڑوں کو پینٹ کرکے کی۔ ان کی پینٹنگز میں جیومیٹریکل اشکال زیادہ نظر آتی ہیں۔
(ہینری اینڈ روز پرل مین کلیکشن)
-
15/31
نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں پابلو پکاسو کی ’لے دا موازیل دا ایوینوں‘ (1907)
پکاسو نے اس پینٹنگ میں بارسلونا کے ایک کوٹھے میں کام کرنے والی پانچ خواتین کے جسم کو دکھانے کے لیے جیومیٹرک پیٹرن استعمال کیے۔
(اے ایف پی/ گیٹی)
-
16/31
فلاڈیلفیا کے میوزیم آف آرٹ میں مارسیل ڈوشاں کی ’دی برائیڈ سٹرپڈ بیئر بائی ہر بیچلرز، ایون‘ (1923-1915)
ڈوشاں نے اپنے اس عجیب فن پارے کو ’ہمیشہ کے لیے نا مکمل‘ قرار دیا ہے۔ اس کا مقصد اس کشمکش کو دکھانا ہے جو ایک دلہن اور غیر شادی شدہ لوگوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کو ’لارج گلاس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں شیشے کے دو بڑے ٹوٹے اور لٹکتے ٹکرے ہیں، ان کے درمیان ایک میکینکل طرح کی دلہن ہے، نو غیر شادی شدہ ہیں اور ایک نظامِ شمسی کی طرح کی شکل کو آئل پینٹ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
گیبی ایو (سی سی بائی 2.0)
-
17/31
نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں اینڈی وار ہول کی ’کیمپ بیلز سوپ کینز‘ (1962)
یہ آرٹ ورک 32 کینوسز پر مشتمل ہے۔ جس میں ہر کینوس پر کیمپ بل سوپ کے محتلف فلیورز ہیں۔ اس کا مقصد امریکہ میں پوپ آرٹ کو متعارف کروانا تھا۔ جس کے نتیجے میں اس طرح کا مزید کام بھی سامنے آیا۔
-
18/31
میڈرڈ کے میوزیو ڈیل پراڈو میں بوش کی ’دی گارڈن آف ارتھی ڈیلائٹس (1503-1515)
بلوط کے پینل پر اس غیر معمولی آئل پینٹنگ کے مرکزی پینل میں مرد اور عورت کا ایک انوکھا یوٹوپیا ظاہر ہوتا ہے۔
دائیں پینل میں بی بی حوا کو حضرت آدم کو پیش کیے جانے سے پہلا کا منظر ہے جبکہ دائیں پینل پر جہنم کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ امکان ہے کہ ڈنمارک کے مصور بوش کا یہ فن پارہ ہوس کے خلاف ایک انتباہ ہے۔
(میوزیو ڈیل پراڈو)
-
19/31
نیویارک میں واقع میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں جیسپر جون کا ’فلیگ‘ (1954-1955)
امریکی فنکار نے خواب دیکھا کہ اس نے ایک بہت بڑا امریکی جھنڈا پینٹ کیا اور اگلی صبح فوری طور پر اس پر عمل کیا۔ اب یہ وہ پینٹنگ ہے جس کے لیے وہ مشہور ہیں، جسے شفاف پینٹ کے نیچے نظر آنے والے اخبار کے ٹکڑوں پر پینٹ کیا گیا ہے۔
(ای پی اے)
-
20/31
ٹیٹ لیورپول میں دیمین ہرسٹ کی اینتھراکیونون-1- دیازونیئم کلورائیڈ (1994)
رنگین دائروں کی قطاروں پر مشتمل یہ سپاٹ پینٹنگ کی مشہور مثال ہے، جسے ہرسٹ کے معاونین نے تیار کیا تھا۔ اس فنکار نے 1986 سے لے کر 2011 تک ایک سال میں تقریباً 60سپاٹ پینٹنگز تیار کیں۔ ہرسٹ مبینہ طور پر اب برطانیہ کے سب سے امیر ترین آرٹسٹ ہیں۔
-
21/31
نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں سالواڈور ڈالی کی ’دی پرسسٹنس آف میموری‘ (1931)
اس جادوئی حقیقت پسندی پر مشتمل پینٹنگ میں پگھلنے والی گھڑیوں کے ذریعےوقت اور جگہ کو ایک خاص خیال کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ انسانی چہرہ، اپنی لمبی پلکوں کے ساتھ ایک ڈالی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ پینٹنگ مصور کی سگمنڈ فروئڈ کے تجزیوں میں دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے، جس نے انہیں 28 سال کی عمر میں سٹار بنا دیا تھا۔
(گیٹی)
-
22/31
ٹیٹ، لندن میں لوشین فروئڈ کی ’گرل وِد آ ڈاگ‘ (1951)
فروئڈ نفسیاتی طور پر پیچیدہ علامتی تصویروں کے لیے جانے جاتے تھے اور ان کی پہلی بیوی کٹی گارمن کی یہ پینٹنگ، جو اُس وقت حاملہ تھی، کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔ وہ اپنی تخلیقات میں بہت سارے جذبات کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مختصر وقت تک چلنے والی اپنی شادی کے دوران انہوں نے اپنی اہلیہ کو متعدد بار پینٹ کیا۔ 1952 میں دونوں کی شادی اختتام پذیر ہوگئی۔
(گیٹی)
-
23/31
اوسلو کے دی نیشنل میوزیم میں ایڈورڈ مُنک کی ’دی سکریم‘ (1893)
یہ پینٹنگ اُس وقت تخلیق کی گئی جب دو دوستوں کے ساتھ سیر کے دوران مُنک خوف اور اضطراب میں پڑ گئے اور ’آسمان اچانک سرخ ہو گیا۔‘ کہا جاتا ہے کہ اس میں جدید آدمی کی آفاقی پریشانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ فی الحال اوسلو کے نئے نیشنل میوزیم میں اس پینٹنگ کی دوبارہ بحالی کا انتظار ہے۔
(ناسجونالموسیٹ)
-
24/31
مشی گن کے ڈیٹروئٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ میں جون ہنری فوسیلی کی ’دی نائٹ میئر‘ (1781)
یہ جنسی طور پر متحرک کرنے والی پینٹنگ بستر پر موجود خاتون کی ہے، جس کے سینے پر لٹکتی ہوئی ایک شیطانی مخلوق وحشت کی علامت رہی ہے۔ پہلی مرتبہ 1782 میں ایک سالانہ نمائش میں اس کی نمائش کی گئی تھی۔
کیا یہ فوسیلی کی اپنی محبت کی زندگی کا حوالہ دے رہا ہے؟ یا یہ عورت کی خواہش کے بارے میں ہے؟ اس آرٹ ورک نے اپنے دور میں صدمے اور سازشیں پیدا کیں اور فوسیلی کو مشہور بنا دیا۔
(ڈیٹرائٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس)
-
25/31
لندن کے ٹیٹ ماڈرن میں بریجٹ ریلے کی ’ناتاراجا‘ (1993)
بریجٹ ریلی نے پہلی بار 1960 کی دہائی میں اپنی سیاہ اور سفید تجریدی پینٹنگز تخلیق کیں، جو حرکت کرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ بعد میں انہوں نے چمکدار اشکال پر مبنی پینٹنگز ہندوستان کے سفر سے متاثر ہو کر بنائی گئیں۔ وہ بھی نقل و حرکت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ان پینٹنگز کو کینوس پر منتقل کرکے اپنے اسٹوڈیو معاونین کے حوالے کرنے سے قبل انہوں نے اس کی تخلیق غذ پر کی تھی۔
(ٹیٹ)
-
26/31
نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں جیکسن پولک کی ’آٹم ردم‘( نمبر 30) (1950)
پولک نے اپنی پہلی ’ڈرپ پینٹنگ‘ 1947 میں تخلیق کی تھی اور آرٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس تکنیک میں ایک کینوس فرش پر افقی حالت میں رکھ کر اس پر پینٹ بہا کر، ٹپکا کر اور یہاں تک کہ چھڑک کر بھی پینٹنگ بنائی جاتی ہے۔ اس تکنیک سے بنائی گئی اس پینٹنگ میں خزاں کا تال میل اپنے عروج پر ہے، جو فطرت کی خوشنودی ہے۔ 1956 میں ایک کار حادثے میں ہلاکت کے وقت پولک کی عمر 44 سال تھی۔
(میٹروپولیٹن میوزیم)
-
27/31
پیرس کے میوزی دی اوسرے میں ایدوار مانے کی ’ لی ڈیجیونر سرل ہربی‘ (1862)
یہ پینٹنگ اُس وقت ایک سکینڈل کا باعث بنی جب اس کی پہلی بار 1863 میں پیرس میں نمائش کی گئی تھی۔ ایک برہنہ عورت کا دو مکمل لباس پہنے مردوں کے ساتھ پکنک منانے کا منظر اب بھی تنازع کا باعث ہے، لیکن مانے کے دور میں برہنہ خواتین دیویوں کی علامات کی نمائندگی کرتی تھٰیں۔ یہ پینٹنگ، جو روز مرہ کی ترتیب میں عریاں دکھتی ہے، ماڈرن آرٹ کے لیے روانگی کا مرکز تھی۔
(آر ایم این (میوزی دی اوسرے)/ ہروی لیوانڈوسکی)
-
28/31
آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکسس کے ہیری رینسم سینٹر میں فریدا کاہلو کا سیلف پورٹریٹ (1940)
میکسیکو کی فنکار کو اپنی تصویر کشی کرنے کا شوق تھا۔ اس سے ان کی تکلیف کا پتہ چلتا ہے۔ ایک بس حادثے کے بعد ان کی دیرپا تکلیف، ان کے بانجھ پن کی، مصور ڈیاگو رویرا سے ان کی طلاق اور فوٹو گرافر نکولس مورے کے ساتھ ان کے عشق کے اختتام کی تکلیف۔ میکسیکو کی لوک داستانوں سے متاثرہ ان کی پینٹنگز پہیلی کی مانند ہیں۔
(اے ایف پی/گیٹی)
-
29/31
سپین کے شہر میڈرڈ کے پراڈو میوزیم میں ویلاسکواس کی ’لاس مینیناس‘ (1656)
ہسپانوی گولڈن ایج کے معروف فنکار نے خود کو ہسپانوی عدالت کی اُس حقیقت پسندی میں پیش کیا ہے جہاں وہ عدالت کے مصور تھا۔ نوجوان شہزادی انفانٹا مارگریٹا تھریسا کو چاروں طرف سے نوکروں نے گھیر ہوا ہے جبکہ ان کے والدین سپین کے بادشاہ فلپ ششم اور آسٹریا کی ماریانا بھی ایک دروازے سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس میں دیکھنے والے اور ان کرداروں کے مابین جو تعلق پیش کیا گیا ہے اس میں بہت بھید ہے۔ مثال کے طور پر ، کیا شیشے میں عکس کینوس پر چھپی ہوئی تصویر کی عکاسی کرتا ہے؟
(پبلک ڈومین)
-
30/31
سینٹ پیٹرس برگ کے سٹیٹ ہرمائیٹج میوزیم میں ہینری ماتیس کی ’کنورسیشن‘ (1912-1908)
ماتیس کی اس آئل پینٹنگ میں ان کو اور ان کی اہلیہ امیلی کو گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ماتیس نے دھاری دار پاجامہ پہن رکھا ہے، جو 20 ویں صدی کے فرانس میں تفریحی لباس کے طور پر فیشن میں اِن تھا۔ یہ ان کے گھر میں پینٹ کیا گیا تھا اور ان کی بیوی کے بیٹھنے کے انداز میں ایک تناؤ نظر آتا ہے- شاید اس کی وجہ ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ایک بار اہلیہ کو بتایا تھا کہ وہ ان سے زیادہ پینٹنگ کرنے سے محبت کرتے ہیں۔
(گنڈالف گیلری)
-
31/31
لندن کی ٹیٹ بریٹن میں سر جون ایوریٹ میلائس کی ’اوفیلیا‘ (1852-1851)
شیکسپیئر کے پلے ہیملٹ کا ایک کردار اوفیلیا آہستہ آہستہ پانی میں ڈوب رہی ہے۔ سر جون ایوریٹ میلائس نے پوری توجہ کے ساتھ اس پینٹنگ کی تخلیق کی جس میں ہیملٹ کے اوفیلیاکےوالد کو قتل کرنے کے بعد نتائج دیکھائے گئے ہیں۔ سر جون ایوریٹ کی 19 سالہ ماڈل لیزی سیدل کئی گھنٹوں تک پانی میں رہنے کی وجہ سے تقریباً فوت ہونے کے قریب پہنچ گئی تھیں کیونکہ پانی کو گرم رکھنے کے لیے جلائے گئے تیل کے لیمپ بجھ چکے تھے۔آرٹسٹ نے اس پر توجہ نہیں دی اور بعد میں انہیں ماڈل کے ڈاکٹر کا بِل ادا کرنا پڑا۔
(جون ایوریٹ میلائس)