صوبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے لیکچرار محمد افضل نے کالج کی ایک طالبہ کی جانب سے لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات سے بری ہونے کے بعد بے گناہی کا لیٹر جاری نہ کیے جانے پر اپنی جان لے لی۔ اس واقعے پر سوشل میڈیا پر کافی بحث و مباحثہ جاری ہے، جہاں کچھ لوگ اسے ’می ٹو‘ مہم کا غلط استعمال قرار دے رہے ہیں تو وہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف خواتین کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اس ضمن میں قوانین اور نظامِ عدل میں موجود کمزوریوں اور معاشرتی خرابیوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔
ایم اے او کالج کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کی ایک طالبہ کی جانب سے انتظامیہ کو دی گئی ایک درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لیکچرار محمد افضل انہیں اور دیگر خواتین طالبات کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ ان کے اس رویے پر عدم تحفظ کا شکار ہیں، لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
درخواست ملنے کے بعد کالج کی ہراسانی سے متعلق کمیٹی نے تحقیقات میں لیکچرار محمد افضل پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
جس کے بعد محمد افضل نے کمیٹی کی سربراہ عالیہ رحمٰن کو اس انکوائری کی رپورٹ پر ان کی بے گناہی کا لیٹر جاری کرنے کو کہا، جس پر انہیں کہا گیا کہ وہ اس مقصد کے لیے درخواست لکھیں، جسے وہ پرنسپل کو پہنچادیں گی۔
محمد افضل نے آٹھ اکتوبر کو کمیٹی سربراہ عالیہ رحمٰن کے نام ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی بے گناہی کا لیٹر جاری کرنے کی درخواست کی۔
انہوں نے خط میں معاملے کی تفصیل لکھتے ہوئے ہراسانی کا الزام لگانے والی طالبہ کا نام درج کرنے کی بجائے ان کا ذکر کلاس رول نمبر سے کیا۔
محمد افضل کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی سربراہ کے نام لکھا گیا خط۔ (تصویر: سوشل میڈیا)
تاہم اگلے ہی روز یعنی نو اکتوبر کو محمد افضل نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کرلی۔
ایس ایچ او تھانہ فیکٹری ایریا فاروق اصغر اعوان نے بتایا کہ نو اکتوبر کو پولیس کو لیکچرار محمد افضل کی خودکشی سے متعلق کال موصول ہوئی۔ جب موقع پر پہنچے تو ان کی اہلیہ اور بھائی موجود تھے۔ ان کی جانب سے کسی کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے بیان پر لاش ان کے حوالے کر دی گئی، اس لیے مزید تفتیش بھی نہیں کی جا رہی۔
’اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں‘
سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر محمد افضل کا ہاتھ سے تحریر کردہ ایک خط بھی گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’وہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں اور پولیس اس معاملے کی تفیتش نہ کرے۔‘
محمد افضل کا مبینہ خط (تصویر: سوشل میڈیا)
ایم اے او کالج کے ایک لیکچرر اطہر شیراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ محمد افضل ان کے بہترین دوست تھے اور کالج میں ان کا زیادہ تر وقت ان کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔
انہوں نے بتایا: ’سات اکتوبر کو جب محمد افضل سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت پریشان تھے کیونکہ کالج میں ہراسانی کے الزامات کے بعد ان کی اہلیہ ان سے لڑ جھگڑ کر اپنے والدین کے گھر چلی گئیں تھیں۔‘
اطہر شیراز کے مطابق: ’وہ بہت پریشان تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ جس لڑکی نے ان پر الزام لگایا ہے، اسے کسی نے ورغلایا ہے۔‘
جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ
ایم اے او کالج کے ایک پروفیسر طارق کریم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ ’اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح کے بھونڈے الزامات سے ہر مرد ٹیچر پریشان ہو چکا ہے، ایک عجیب سا ماحول بنا ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انہیں شبہ ہے کہ کالج کے پرنسپل کی ایما پر انہیں بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔ لڑکی کے الزامات کی درخواست کا ڈھونڈورا پیٹ دیا گیا لیکن جب وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو ایک لیٹر بھی جاری نہ ہوا۔‘
محمد افضل کے ساتھی اساتذہ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ (تصویر: سوشل میڈیا)
’محمد افضل کے خط کا علم سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا‘
جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایم اے او کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت یار سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں لیکچرار محمد افضل کی جانب سے نہ تو کوئی خط موصول ہوا اور نہ ہی ہراسانی تحقیقاتی کمیٹی کی انکوائری پر بے گناہی کا لیٹر جاری کرنے کی درخواست موصول ہوئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کالج کے دیگر اساتذہ کی جانب سے محمد افضل کے خلاف ہراسانی کے الزامات کی سازش کے تانے بانے آپ سے جوڑے جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ہر طرح کی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ ’مجھے اس معاملے کے بارے میں علم نہیں تھا۔ محمد افضل کے خط کا بھی مجھے سوشل میڈیا سے معلوم ہوا، تاہم اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحقیقات کے لیے جو تعاون درکار ہوگا، میں حاضر ہوں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ہراسانی کمیٹی کی سربراہ عالیہ رحمٰن سے متعدد بار فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
ہراسانی کا الزام جھوٹا ثابت ہونے کے باجود لیکچرار محمد افضل کی خودکشی کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث جاری ہے۔
میشا شفیع کی جانب سے ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے اداکار و گلوکار علی ظفر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں سوال اٹھایا کہ ’لیکچرار محمد افضل کے لیے کتنے لوگ آواز اٹھائیں گے؟ اور کتنے لوگ می ٹو مہم کے غلط استعمال کے خلاف بولیں گے؟ کون ذمہ دار ہے؟’
Mr Afzal, Lecturer at Govt MAO College Lahore commits suicide after false harassment allegations. Leaves a suicide note as his wife leaves him & his reputation tarnished. How many will speak up for him now? How many will speak up against the misuse of #Metoo. Who is responsible? pic.twitter.com/WnWSyZyBOQ
— Ali Zafar (@AliZafarsays) October 19, 2019
دوسری جانب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن نگہت داد نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہاکہ ’ایک طالبہ کی جانب سے لیکچرار محمد افضل پر ہراسانی کا الزام جھوٹا ثابت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا نہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’کئی بار جنسی ہراسانی کا شکار خواتین انصاف نہ ملنے پر خودکشی کی کوشش بھی کر چکی ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہاں قوانین اور نظامِ عدل میں موجود کمزوریوں اور معاشرتی خرابیوں کے باعث کبھی بے گناہ کو سزا مل جاتی ہے اور کبھی مجرم بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں، اس لیے اس کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف خواتین کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔‘
However to any of the alleged harasser & whoever want to use this unfortunate event to discredit the #MeToo, please recall that not a long time ago, Haleema Rafeeq, a Pakistani cricketer who was sexually harassed, eventually committed suicide in the face of defamation suit
— Nighat Dad (@nighatdad) October 19, 2019
ہم نیوز کے مارننگ شو کے میزبان اویس منگل والا نے لکھا: ’ہراسانی کا دعویٰ کرنے والی ہر خاتون سچی نہیں ہوتی! کسی خاتون کی جانب سے ہراسانی کا دعویٰ کرنے پر ہمیشہ مرد کو ہی قصوروار ٹھہرانا بند کردیں۔‘
Every woman who claims being harassed is not honest!! Stop claiming that whenever a lady says she has been harassed, the men are always guilty!! Professor M. Afzal of MAO college commits suicide as he could not bear the burden of false harrasment allegation.#MeToo #WomenCanLie pic.twitter.com/gXajHSE5VD
— Ovais Mangalwala (@ovaismangalwala) October 19, 2019
ثمینہ رانا نامی ایک خاتون نے ٹوئٹر پر لکھا: ’می ٹو مہم کا سب سے برا نتیجہ یہ ہے کہ خواتین اپنی صنف کو ایک معذوری کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اگر الزام جھوٹا ہو تو اس سے کسی مرد کی زندگی پر ناقابل تلافی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔‘
Worst outcome of #metoo is that women is continually using the gender as a disability, victimisation is real but what if it is a false allegation? It can leave an inevitable consequence on a man’s life. They are too easy to go through an evaluation of ‘must’ve done’ trutte. Sad!
— Sameena E. (@SameenaERana) October 19, 2019
دوسری جانب ایک صارف کا کہنا تھا کہ جب خواتین ہراسانی کی بات کرتی ہیں، جب وہ اپنی می ٹو کی کہانیاں شیئر کرتی ہیں تو تب لوگ نہیں کہتے کہ کون ذمہ دار ہے؟ لیکن جب ایک یہ واحد کیس سامنے آیا ہے تو سب میدان میں کود پڑے اور اس (می ٹو) مہم کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے؟’
When women speak up about their harassment, when they share their #MeToo stories, i don't see these people standing up and saying, who's responsible?
— a (@soundsofcedarr) October 20, 2019
But now a SINGLE case has them jumping all over it and somehow the movement is responsible?